تحریر : عبدالرزاق چودھری ملکی تاریخ کے سب سے بڑے اور اعصاب شکن انتخابی معرکے میں بالآخر مسلم لیگ ن سرخرو ہو گئی جبکہ اسی حلقے میں صوبائی نشست پر کامیابی پاکستان تحریک انصاف کا مقدرٹھہری ۔ حلقہ این اے 122 کا ضمنی الیکشن مسلم لیگ ن کی آنکھوں کے تارے ایاز صادق اور تحریک انصاف کے منظور نظر عبدالعلیم خان کے درمیان ہوا۔ دونوں جانب سےدولت کا بے دریغ استعمال دیکھنے میں آیا اور الیکشن کمیشن کے تشکیل کردہ ضابطہ اخلاق کی دھجیاں بکھرتے نہ صرف عوام نے دیکھی بلکہ میڈیا نے بھی اسے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر لیا۔ کئی ہفتوں تک لاہور کے غریب باسیوں کی پانچوں انگلیاں گھی میں رہیں اور دونوں جانب کے ووٹرز، سپورٹرز نے جی بھر کے کھایا پیا اور موج اڑائی ۔ اور یہ موج میلہ اس وقت اپنے اختتام کو پہنچا جب مسلم لیگ ن کے امیدوار سردار ایاز صادق نے تحریک انصاف کے امیدوار عبدالعلیم خان کے 72043 ووٹ کے مقابلے میں 76204 ووٹ حاصل کر کے میدان مار لیا اور یوں ایاز صادق نے 4161 ووٹوں کی برتری لے کر مسلم لیگ کی سیاسی ساکھ کو سہارا دیا۔
دوسری جانب اسی دن یعنی 11 اکتوبر 2015 کو حلقہ این اے 144 اوکاڑہ 2 میں بھی ضمنی انتخاب کا میدان سجایا گیا جو نتائج کے اعتبار سے غیر متوقع اور حیران کن ثابت ہوا جس کے ردعمل کے طور پر سیاسی جماعتوں میں ہلچل دیکھنے میں آئی۔ اوکاڑہ این اے 144 سے آزاد امیدوار چودھری ریاض الحق جج مسلم لیگ ن کے امیدوار علی عارف اور پی ٹی آئی کے امیدوار اشرف سوہنا کو عبرتناک شکست دے کر فاتح قرار پائے۔حتیٰ کہ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی ضمانت تک ضبط ہو گئی۔ البتہ پی ٹی آئی کے لیے یہ بات حوصلہ افزا رہی کہ حلقہ این اے 122 میں صوبائی نشست پر پی ٹی آئی جیت گئی۔ پی ٹی آئی کے شعیب صدیقی نے 31993 ووٹ لےکر مد مقابل مسلم لیگ ن کے محسن لطیف کو چاروں شانے چت کر دیا۔
ضمنی الیکشن کے ان حالیہ نتائج کے ساتھ ہی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے وہ الزامات بھی دم توڑ گئے جو وہ ایک عرصے سے دہراتے آ رہے ہیں۔ بالخصوص حلقہ این اے 122 کا نتیجہ اس امر کا غماز ہے کہ حلقہ کے عوام نے ایک مرتبہ پھر ایاز صادق کے حق میں فیصلہ دے کر دھاندلی کے حوالے سے عمران خان کے دعووں کی نفی کر دی ہے اور ایاز صادق کی جیت پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ عمران خان کے وہ الزامات جس میں وہ کہتے تھے کہ 50000 سے 52000 ہزار جعلی ووٹ تھے عوام کی عدالت میں سچ ثابت نہیں ہوے کیونکہ نتیجہ کے اعتبار سے چند ہزار ووٹوں کے ہیر پھیر کے علاوہ صورتحال جوں کی توں ہے جیسے 2013 میں تھی۔
Election
ان ضمنی الیکشن کے نتائج دونوں مقبول جماعتوں مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔ اس الیکشن کے نتیجے میں ایک پہلو تو یہ کھل کر سامنے آیا ہے کہ تحریک انصاف کی احتجاجی سیاست اور جارحانہ حکمت عملی سے اس کے ووٹرز میں اضافہ ہوا ہے اور نہ ہی کمی واقع ہوئی ہےاس کی عوامی مقبولیت جوں کی توں ہے۔ دوسرا پہلو جس کا انکشاف ہوا ہے وہ یہ کہ مسلم لیگ ن کو سڑکوں اور پلوں کا جال بچھانے کے باوجود لاہور میں بڑی مشکل سے کامیابی ملی ہے اس لیے مسلم لیگ ن کے لیے ضروری ہو گیا ہے کہ وہ اپنی کارکردگی کو بہتر بنائے ورنہ آئندہ الیکشن میں عوام انہیں مسترد کرنے کے لیے تیار بیٹھی ہے۔ اور وہ لاہور جسے وہ اپنا قلعہ تصور کرتی ہے ہاتھوں سے ریت کی طرح کھسکتا دکھائی دے رہا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کو بھی اپنی سیاسی حکمت عملی کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ الزام تراشی اور دشنام طرازی کی سیاست کو خیر آباد کہہ کر عوامی ایشوز پر سیاست کرنے کے عمل کو فروغ دینا ہو گا اور اشرف سوہنا جیسے پرانے سیاسی گھوڑوں کو سیاسی میدان میں اتارنے کی بجائے پی ٹی آئی کے حقیقی چہرے یوتھ کو میدان میں اتارنے کی مشق کرنا ہو گی تا کہ عوام تحریک انصاف کے تبدیلی کے نعرے کی عملی تعبیر دیکھ سکے۔
ضمنی الیکشن کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ دونوں عوامی جماعتوں پی ٹی آئی اور حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے لیے ایک سبق کی حیثیت رکھتا ہے اور وہ سبق یہ ہے کہ اب دونوں جماعتیں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کی بجائے عوامی خدمت کے میدان میں ایک دوسرے کا مقابلہ کریں ۔ پی ٹی آئی صوبہ خیبر پختونخواہ کو مثالی صوبہ بنا کر دکھائے اور مسلم لیگ ن پنجاب کی عوام کی خوشحالی کے لیے عملی اقدامات کرے۔اور خاص کر توانائی کے بحران پر قابو پانے کےلیے ہنگامی بنیادوں پر دور رس نتائج کی حامل منصوبہ بندی کرے تا کہ ملکی معیشت مستحکم ہو۔