بزرگ فرماتے ہیں کہ نام کی نسبت بڑی معتبر ہوتی ہے۔اس لیے نام محبت ،خلوص اور سوچ سمجھ کے ساتھ رکھا جانا چاہیے۔میں جب احمد عطاء اللہ کے نام پر غور کرتا ہوں اور پھر ان کی خداداد صلاحیتوں کو دیکھتا ہوں تو بزرگوں کی اس نصیحت پر میرا یقین پختہ ہو جاتا ہے۔
بلاشبہ احمد عطاء اللہ کو قدرت نے بے مثال صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ان کے شعر کہنے کی رفتار اس قدر ہے، گویا یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ اس دنیا کو شاعری کی مہکتی خوشبوئوں سے معطر کرنے کیلئے آئے ہوں ۔اس برق رفتاری کے ساتھ شعر کہنے کے باوجود ان کی شاعری کا رنگ پھیکا نہیں پڑتا بلکہ جتنی رفتار بڑھتی جاتی ہے رنگ اتنا ہی کھِلتا اور نکھرتا جاتا ہے ۔اس کمال ،وصف اور اس بے نظیر عطاء کا کوئی جواب نہیں ،یہ لاجواب ہے۔ان کے اشعار پڑھتے ہی ذہن کی لوح میں محفوظ ہو جاتے ہیں ۔روانگی ،تسلسل اور اندازِ بیاں منفرداوربے مثل ہے۔
احمد عطاء اللہ کے قلمی نام سے دنیائے شعر و ادب میں شہرت کے زینے طے کرنے والے یہ شاعر 10اپریل کو زندہ دلان شہر، لاہور میں پیدا ہوئے۔آبائی وطن مقبوضہ کشمیر ہے۔ ان کے والد 1947ء میں ہجرت کر کے آزاد کشمیر آ گئے۔پھر یہاں سے بسلسلہ روزگار لاہور چلے گئے ۔احمد عطاء اللہ نے گریجویشن اور اردو میں پوسٹ گریجویشن کی ڈگری گورنمنٹ کالج لاہور سے حاصل کی۔انہوں نے بطور اردو لیکچرار اپنے کیرئیر کا آغاز کیا ۔5برس تک تدریسی خدمات سر انجام دیں۔ا س کے بعد پبلک سروس کا امتحان اچھے نمبروں میں پاس کیا اور 1996ء میں بطور اسسٹنٹ کمشنر ملازمت اختیار کی۔اِس وقت بطور کمشنر (B-20)آزاد کشمیر میں اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔احمد عطاء اللہ اپنے زمانہ طالبعلمی میں گورنمنٹ کالج لاہور میں مجلس ِ اقبال کے جنرل سیکرٹری،پنجابی مجلس اور مجلس صوفی تبسم کے صدر ،سینئیر کلب کے ممبراور کالج گزٹ کے مدیر رہے۔ان کی تصنیفات میں “بھول جانا کسی کے بس میں نہیں (شاعری) سال2000ئ،عزیز حامد مدنی”شخص اور شاعر” (تنقید /تحقیق)سال 1998ئ،ہمیشہ”پروین شاکر ایوارڈ یافتہ”(شاعری) سال2011ئ،والہانہ(شاعری)سال2015ء شامل ہیں۔احمد عطاء اللہکے بقول” انھوں نے شاعری میں باقاعدہ اصلاح کسی سے نہیں لی۔
یہ سال 1985کا واقعہ ہے جب عباس تابش صاحب سے گورنمنٹ کالج لاہور میں ملاقات ہوئی، تو تبھی میں نے شاعری شروع کی۔اس سے پہلے کی جو شاعری تھی وہ محفوظ بھی نہیں رکھی،اوروہ شاعری میری تھی بھی نہیں ،بلکہ وہ مختلف شعراء کے شعر تھے جو میں ڈائری پر لکھتا تھا ،یاد کر لیتا تھا،کہیں مقابلہ وغیرہ ہوتو سناتا تھا ۔گریجویشن میں جب گورنمنٹ کالج لاہور میں تھا باقاعدہ شاعری کا آغاز کیا ۔اس سے پہلے میں شعر نہیں کہتا تھا ۔پہلی چار غزلیں عباس تابش کو دکھائیں تو انہوں نے بتایا کہ ان کی اصلاح کی ضرورت نہیں ہے ۔وہ انھوں نے “فنون ” رسالے کو بھیج دیں۔جو احمد ندیم قاسمی صاحب کی ادارت میں چل رہا تھا ،انھوں نے کوئی تین یا چھ ماہ کے وقفے سے دو دو کر کے چاروں غزلیں چھاپ دیں۔ انھیں مشاعروں میں دلچسپی کم ہی رہی۔
مشاعروں میں شرکت کا آغاز انھوں نے 2015میں کیا۔اس سے پہلے کہیں دو تین مشاعرے ہی میرے حافظے میں ہیں جو خالد احمد کیساتھ احمد ندیم قاسمی صاحب کی صدارت میں پڑھے ،عباس تابش بھی ساتھ تھے ۔تب وہ مستند شاعر تھے ۔پہلا بڑا مشاعرہ جو انہوں نے پڑھا وہ اِندور (انڈیا)میں پڑھا ۔یہ مشاعرہ سال2015 ء میں ہوا ۔میری کچھ چیزیں محشر آفریدی نے شاید سوشل میڈیا پر دیکھیں ،دوستوں سے یا عباس تابش صاحب سے ،کسی سے سُنیں تو انھوں نے مجھے بلایا۔”اِندور” والا میرا پہلابڑا مشاعرہ تھا جس میں انڈو پاک کے نامی گرامی شعراء موجود تھے۔اس کے بعد مشاعرہ پڑھنے کا سلسلہ چل نکلا،امریکہ بھی کافی مرتبہ جا چکا ہوں اور انگلینڈ میں بھی جا کر مشاعرے پڑھے۔جب میں لاہور میں تھا، یہاں احمد ندیم قاسمی صاحب ،خالد احمد ،نجیب احمد،قمر رضا شہزاد،سعد اللہ شاہ،منیر نیازی صاحب سے بھی ملاقاتیں رہیں ۔ندیم بھابھہ بھی ان دنوں لاہور میں ہوتے تھے، ان سے بھی ملاقاتیں رہتیں ۔نظم کے شاعر تھے جاوید انوراور فیصل حنیف ایک شاعر ہیں لاہور میں ان سے بھی دوستانہ رہا “۔
احمد عطاء اللہ کی شاعری میں گہری سوچ رکھنے والوں کیلئے وسعت ہے ۔اتنی وسعت کہ جتنا گہرائی میں جا کر وہ سوچ سکیں ،ان کے اشعار، ان کے ساتھ ساتھ چلتے جائیں گے۔ جوقاری زیادہ گہرائی تک جانے والے نہیں ہوتے انہیں بھی وہ تنہا نہیں چھوڑتے ۔ان کی شاعری ہر زاویہ اور ہر نقطہ نگاہ سے مکمل ہے۔احمد عطاء کا، اندازِ سخن اور منفرد شعری لب و لہجہ انھیں ” شاعرِ کامل” کے درجے پر فائز کرتا ہے۔
وہ زندہ دل شخصیت ہیں ۔مایوسی اور تنہائی کو قریب نہیں بھٹکنے دیتے ۔احمد عطاء اللہ خود اعتمادی کیساتھ شعر کہتے ہیں ۔بڑے دبنگ انداز میں اپنا مدعا بیان کرتے ہیں ۔ان کی شاعری کا حسن یہ بھی ہے کہ وہ سادگی اور شفافیت سے بھرپور ہے
احمد عطاء اللہ کی شاعری کے بے شمار حسیں رنگ ہیں ۔ان کی شاعری حسن و جمال کی شاعری ہے ۔حقیقت،سچائی اور عقیدت کی شاعری ہے۔انھیں شعر کہنے پر اس قدر ملکہ حاصل ہے کہ اس طرح یا اس ڈھب سے تو بڑی قدوقامت کے لوگ بھی بسا اوقات گفتگو نہیں کر سکتے ،جس قدر خوبصورتی،تسلسل اور شائستگی کے ساتھ وہ شعر کہتے جاتے ہیں۔ان کی غزل کے ہر شعر میں الگ مضمون ملتا ہے ۔ہر شعر میں ایک الگ فکر اور واقعہ میسر آتا ہے ۔ وہ بے تکلفی سے شعر کہنے کے ہنر سے بخوبی آشنا ہیں ۔
احمد عطاء اللہ کا تخلیقاتی سفر جاری و ساری ہے۔دُعا ہے کہ تادیر ا ن کا قلم اسی برق رفتاری سے سخن کی دنیا سنوارتا رہے۔ان کے اشعار صفحہ قرطاس پر یونہی جگنو ئوں کی طرح چمکتے دمکتے رہیں ۔ ان کے پرستاراوراہلِ علم و ادب اُن کے دلکش شعری اسلوب و بیاں سے لطف اندوز ہوتے رہیں۔احمد عطاء اللہ کی ایک خوبصورت غزل کے ساتھ اختتام :