لاہور (جیوڈیسک) ترقی پسند اور محبت کی شاعری پیش کر نے والے شاعر احمد فراز کو اپنے مداحوں سے بچھڑے 7 برس ہو گئے۔
4 جنوری 1931 کو کوہاٹ میں پیدا ہونے والے احمد فرازاردو، فارسی، پنجابی سمیت دیگر زبانوں پربھی مکمل عبور رکھتے تھے۔ احمد فراز نے ہزاروں نظمیں اوردرجنوں مجموعہ کلام بھی تحریرکیے۔ احمد فرازکے تین بیٹے سعدی فراز، شبلی فراز اور سرمد فراز ان کا نام زندہ و جاوید رکھے ہوئے ہیں، ترقی پسندانہ شاعری کے باعث انھیں جنرل ضیاء الحق کے دور میں گرفتار کرکے 6 سال تک پابند سلاسل بھی رکھا گیا۔
احمد فراز کی شاعری پر مبنی ان کے 14 مجموعہ کلام شائع ہوئے جن میں تنہا تنہا، درد آشوب، شب خون، نایافت، میرے خواب ریزہ ریزہ، بے آواز گلی کوچوں میں، نابینا شہر میں آئینہ، پس انداز موسم، سب آوازیں میری ہیں، خواب گل پریشاں ہے، بود لک، غزل بہانہ کروں، جاناں جاناں اور اے عشق جنوں پیشہ شامل ہیں۔
احمد فراز کو ہلال امتیاز، ستارہ امتیاز، نگار ایوارڈز اور ہلال پاکستان سے بھی نوازا گیا، مختلف یونیورسٹیز اور دیگر تعلیمی اداروں میں ماہر تعلیم کے طور پر بھی اپنے فرائض سر انجام دینے والے کڈنی فیلیئر کے باعث 25 اگست 2008 کو اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔