لاہور (جیوڈیسک) پاکستان کا خواب دیکھنے والے شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال کے افکار اور اقوال پوری قوم کے لیے مشعل راہ ہیں، ان کی شخصیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ قانون کی پاسداری پر یقین رکھتے تھے اور پورا ٹیکس ادا کراتے تھے۔ علامہ اقبال کے پرستار نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں بلکہ ان کی شاعری اور اقوال آج بھی پاکستانیوں کے لیے سبق ہیں۔
انہوں نے انگریز دور غلامی کے خلاف شاعری تو کی، لیکن قانون کی پاسداری ضرور کی اور انگریزوں کو ٹیکس بھی دیا۔ شاہد حسین اسد، ترجمان فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے مطابق ڈاکٹر علامہ اقبال، قانون کی پاس داری کرتے تھے اور انہوں نے اس زمانے میں ٹیکس جمع کرایا۔ علامہ اقبال کے نوادرات میں ایک ان کا انکم ٹیکس گوشوارہ بھی ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے اس گوشوارے کو ایک مثال کے طور پر پیش کیا ہے۔ یہ ٹیکس گوشوارہ 1937ء کا ہے جس کے مطابق مذکورہ سال میں علامہ اقبال نے 1450 روپے کا انکم ٹیکس جمع کرایا۔ ترجمان فیڈرل بورڈ آف ریونیونے کہا کہ تقریباً 1500 روپے کا انکم ٹیکس علامہ اقبال نے جمع کرایا۔ آج کے زمانے میں اگر دیکھا جائے تو اس کی مالیت لاکھوں میں ہوگی۔
علامہ اقبال نے انگریزوں کے دور حکومت کے خلاف جو شاعری کی، اس سے کون آشنا نہیں، لیکن اس کے باوجود بھی انہوں نے قانون کی پاسداری کو مقدم رکھا۔آج ملک کا صرف دو فی صد طبقہ انکم ٹیکس دیتا ہے اور ایک سیاسی جماعت عوام کو ٹیکس جمع نہ کرانے پر بھی اکساتی ہے۔ مستحکم پاکستان کے لیے معیشت کا مضبوط ہو نا ضروری ہے۔ ٹیکس آمدنی بڑھے گی تو جہاں معیشت بہتر ہوگی وہیں پاکستان کو بیرون ذرائع پر انحصار کم کرنا پڑے گا اور معاشی فیصلے آزادانہ اور خود مختار ہوسکیں گے۔