ہمارے ہاں فلسفی شاعر شیخ علامہ محمد اقبال کا اِس شعر کا بڑا چرچا ہوتا کہ:۔
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی۔ جو دکھیں ان کویورپ میںتو دل ہوتا ہے سیپارا
بے شک اس شعر کا چرچا کرنا اقبال سے عقیدت کا مظہر ہے۔ اسی شعر سے جوڑی ایک کہانی کہ جب علامہ اقبال انڈیا آفس لائبریری میں پڑی کتابوں کا مشاہدہ کر رہے تھے تو بے حوش ہر کر گِر پڑھے۔ حوش آنے پر موجود لوگوں سے کہا تھا کہ آپ حضرات یہ نہ سمجھیں کہ میں فرنگ کی لائبریری میں پڑی کتابیں دیکھ کر متاثر ہوا۔ میں تو اس لائبریری میں اپنے آبا کی کتابوں کے نسخے دیکھ کر بے ہوش ہو گیا، کہ فرنگیوں نے ان کتابوں سے فاہدہ اُٹھا کر ترقی کی منازل کیں اور ہمارے اُوپر حکومت کی۔ جبکہ میری مسلمان قوم اس کتابی خزانے سے سبق حاصل نہ کر سکی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ فلسفی شاعر اقبال نے کتاب بینی پر کیوں زور دیا۔ یہی بات اپنے رہبر کی کتاب” اقبال دارالاسلام مودودی ” پڑھ میرے دل میں اُبھری۔ کہ ایک شخص جس کا نام مودودی ہے۔ اس نے مسلمانوں کو بھولا ہوا سبق یاد کرانے کی کوشش کی۔ مودودی نے مدینہ کی اسلامی ریاست جو رسولۖ اللہ نے قائم کی تھی اورجس کو خلفائے راشدین نے کامیابی سے چلا کر دنیا کے سامنے اور خاص کر مسلمان حکمرانوں کے سامنے نمونے کے طورپر پیش کیا، اسے دوبارہ سے قائم کرنے کی تحریک بھر پاہ کی۔کتاب وخلافت و ملوکیت لکھ کر مسلمانوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ کس طرح اسلامی حکومت شخصی حکومت میں تبدیل ہوئی۔
کس طرح پھر سے مسلمان مدینے کی فلاحی ریاست، حکومت الہیّا قائم کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے جماعت اسلامی کے نام سے ایک تحریک برپاہ کی۔ اس کوشش کے لیے حکیم الامت علامہ شیخ محمد اقبال سے لاہور آکر ملاقات کی۔ اقبال نے مودددی کو مشورہ دیا کہ وہ اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لیے حیدر آباد چھوڑ کر پنجاب درا الاسلام پٹھان کوٹ آ جائیں۔یہاں آپ کی زیادہ ضرورت ہے۔بلا آخر موددی نے اللہ کی خاطر ہجرت کی ۔١٩٣٨ء میں اقبال کے کہنے پر چوہدری نیاز علی خان صاحب کے قائم کردہ، دارالاسلام پٹھان کوٹ منتقل ہو گئے۔مگر قوم اور مسلم حکمرانوںنے مودودی کے کام کی قدر نہیں کی۔اس میں شک نہیں کہ آج تک مودودی کی تحریک حکومت الہیّا قائم کرنے میں کامیاب بھی نہیں ہوئی۔ مگر جماعت اسلامی اب بھی حکومت الہیّا قائم کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔ سیداسد گیلانی صاحب اِسی جماعت اسلامی کے رہنما تھے۔ مولانا مودودی کی تحریک احیادین(حکومت الہیّا )کے ہراوّل دستے کے ایک رکن تھے۔ حکومت الہیّا، نظام مصطفےٰ ، اسلامی نظام یا مو جودہ حکومت کا معروف نعرہ مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست نام کچھ بھی ہو اللہ کی زمین پر اللہ کے بندوں پر اللہ کا نظام ہی ہے۔ اسد گیلانی نے حکومت الہیّا کے لیے جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے عملی جد وجہد کے ساتھ علم و ادب سے بھی گہرا لگائو قائم رکھا۔کئی کتابوں کے منصف ہیں۔ ان ہی کی کتاب” اقبال دارالا سلام مودودی ”پر آج بات کریں گے۔
اِس کتاب میں علامہ اقبال اور اسلام سے محبت رکھنے والے ایک مخیر خادم دین زمیدار اور ریٹائرڈسرکاری افسر چوہدری نیاز علی خان صاحب ا ور مجددِ وقت سید مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کا ذکر ہے۔علامہ اقبال امت مسلمہ اور خصوصی طور پر برصغیر کے مسلمانوں کے محسن ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری میں قرآن اورسنت اور عشق محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی تفسیر لکھی ہے۔ آج ان کی شاعری تفسیر میں سے کوئی نہ کوئی شعر پڑھے بغیر بڑے سے بڑے مقرر کی تقریر مکمل نہیں ہوتی۔ اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کا خواب دیکھا تھا۔ اس میں عملی جدو جہد کرنے کے لیے ایک نامور وکیل اور اسلام کے شیدائی اور آل انڈیامسلم لیگ سے ناراض ہو کر انگلینڈ چلے جانے والے، قائد اعظم محمد علی جناح کو اُنہوں نے ہی نے انگلینڈ سے واپس بلا کر برصغیر کے مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے رضا مندکیا تھا۔قائد اعظم نے اسلام کے نام پر دو قومی نظریہ کے تحت جمہوری طریقے سے پر زور تحریک پاکستان چلائی۔
اس کے توڑ میںہندوئوں نے قومیں اوطان یعنی وطن سے بنتی ہیں کا بیانیہ برصغیر کے مسلمانوں کے سامنے رکھا۔ برصغیر کے مسلمانوں نے ہندوئوں کے قومیں اوطان سے بنتی ہیں کے بیانیہ کو رد کرتے ہوئے قائد محترم کا ساتھ دیا۔ صرف دیو بند کے کانگریسی علماء نے قا ئد کی مخالفت کی۔ دیو بند کے چیف حسین احمد مدنی نے قومیں اوطان سے بنتی ہیں کے حق میں کتاب لکھ کر ہندو بیانیہ کی حمایت کی ۔ جبکہ مولانا موددی نے مسئلہ قومیت پر زور دار مضامین لکھ کر ثابت کیا کہ اسلام کا نظریہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں کے بل لکل مختلف ہے۔ قوم مذہب سے بنتی ہے۔ مودودی کے ان مضامین کوآل انڈیا مسلم لیگ نے عوام میں پھیلایا۔ اس طرح موددی نے پاکستان کی حمایت کی۔ اس طرح
٢ مودودی نے اقبال کے اس شعر کی نثر میں تشریع کی کہ:۔ اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں رسولۖ عاشمی
مودودی جماعت کے ١٩٤١ء لاہور قیام سے پہلے اپنے رسالہ ترجمان کے ذریعے ١٩٣٢ء حکومت الہیّا کی تحریک پر پاہ کیے ہوئے تھے۔ علامہ اقبال موددی کے رسالہ ترجمان کو پڑھتے تھے۔ جب چوہدری نیاز صاحب نے اقبال کے سامنے ضلع گورواس پور، جمال پور، دارالاسلام کی تجویز رکھی تو اقبال نے چوہدری نیاز کو مشورہ دیا کہ اس کام کے لیے حیدر آباد کا ایک شخص موددی موضوع ترین ہے۔ اقبال اور چوہدری نیاز کی تحریک پر مجددِ وقت موددی اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لیے حیدر آباد سے پنجاب جمال پور،دار الاسلام ہجرت کرنے پر راضی ہوئے۔ دارالاسلام میں بیٹھ کرکام کرنے کی مہم کے بارے میں چوہدری نیاز اورموددی کے درمیان١٩٣٦ء سے١٩٣٨ء جو خط و کتابت ہوئی وہ اس میںکتاب حرف بہ حرف درج ہے۔
اسدگیلانی نے اس کتاب کے صفحہ ٩٩ سے٢٠٧ تک مودودی اور چوہدری نیاز کے درمیان خط و کتابت کے٤٠ خطوط کو شائع کیا ہے۔ان خطوط میں پنجاب کے ضلع گروداس کے شہر جمال پور، دارلاسلام میں موددی کی نگرانی میں بیٹھ کر علامہ اقبال کی سوچ کے مطابق اسلامی فقہ کی تدوین جدید پر کام کرنے کا نقشہ تیار کیا گیا۔ مودودی کی حیدر آباد سے پنجاب ضلع گروداس پور شہر جمال پور،دارالاسلام میں آمد کی مکمل تفصیل درج ہے۔ اسدگیلا نی کتاب کے باب دہم میں لکھتے ہیں کہ ”مودودی نے اقامت دین کی جس دعوت کا آغاز ترجمان القرآن کے اجرا کے ذریعے ١٩٣٢ء میں کیا تھا وہ دعوت بلا آخر ١٩٣٨ء دارالاسلام منتقل ہونے کے بعد اگست ١٩٤١ء کو ایک اسلامی تنظیم کی صورت میں ڈھل گئی اور اس جماعت نے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں جدو جہد کا آغاز کر دیا۔
چوہدری نیاز علی خان کا قائم کر دہ ادارا،داراالاسلام ضلع گروداس میں پٹھان کوٹ سے چار میل کے فاصلے پر سرنا ریلوے اسٹیشن کے قریب نہر کے کنارے تقسیم ہند تک قائم رہا اور فسادات کے بعد پاکستان میں جوہر آباد ضلع سرگودھا میں منتقل ہو گیا۔ اب بھی اپنی آب و تاب سے اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے کام کر رہا ہے۔مودودی کی بنائی ہوئی جماعت اسلامی حکومت اب بھی علامہ اقبال کی اسلامی فکر، قائد اعظم کے دو قومی نظریہ کے وژن اور چوہری نیاز علی خان صاحب کی اللہ کے راستے میں انفاق کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان میں حکومت الہیّا کے قیام کی جدد جہد کر رہی ہے۔ دیکھیں کب عوام اس دعوت کو قبول کرتے ہیں۔اللہ سے دعا ہے کہ مثل مدینہ مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مدینہ کی اسلامی فلاحی جہادی جلدریاست قائم ہو۔آمین۔