وفا نے پھر سجائی آکے محفل خانہ ٔدل میں قضا بھی آگھسی بے اِذن اس زرتار محمل میں وفا بولی اری تو کون ہے کیا نام ہے تیرا ہماری خلوت ِصدراز میں کیا کام ہے تیرا بظاہر تم ہمیں غم آشنا معلوم ہوتی ہو مگر پھر بھی ذرا کچھ پرجفا معلوم ہوتی ہو کھڑی خاموش ہم کو گھورتی ہے سن وفا ہوں میں جواب آیا مجھے معلوم ہے تو سن قضا ہوں میں تجھے اِک اور غم سہنے کی زحمت دینے آئی ہوں ہمیشہ کی طرح اِک داغ ِحسرت دینے آئی ہوں وفا بولی بہت بہتر مگر بے وقت آئی ہو قضا بولی تقاضا ہے یہی تجھ سے جدائی ہو وفا بولی قیامت تک نہ ہم اِن سے جدا ہوں گے قضا بولی ابھی دیکھو گی ہم سے آشنا ہوں گے وفا بولی میری روزِازل سے ہے شناسائی قضابولی کہ ہوگی اب میری امید برّائی وفا بولی جو میرا ہے تمہارا ہو نہیں سکتا قضا بولی اب اپنا بھی گزارا ہو نہیں سکتا وفا بولی ارے الفت کا بندھن توڑ دوں کیسے ؟ قضا بولی بھلا میں اِن کا دامن چھوڑ دوں کیسے وفا بولی خیام ِشاہ تک ہر حال جائیں گے قضا بولی مگر ہر گام حائل مجھ کو پائیں گے وفا بولی اری گستاخ! تجھ میں اتنی جرأت ہے قضا بولی نہیں جرأت نہیں یہ امر ِقدرت ہے وفا بولی خدارا!اِن کو میرے ساتھ جینے دے قضا بولی وفا یہ ہے رضا کا جام پینے دے وفا بولی حرم کے پاسبان ِآخری یہ ہیں قضا بولی مگر جنت میں مطلوب ِنبی ۖیہ ہیں وفا بولی کہ اِن کے بعد گھر والوں کا کیا ہوگا قضا بولی کہ جب ہم سب نہیں ہوں گے خدا ہوگا وفا بولی میں کیسے منہ دکھائوں گی سکینہ کو قضا بولی میں سب کہہ دوں گی خود شاہ ِمدینہ کو وفا بولی ولی کی کمر ہمت ٹوٹ جائے گی قضا بولی نہیں !دوزخ سے امت چھوٹ جائے گی وفا بولی کہ جنت اِن جفاکاروں کی خاطر ہے قضا بولی نہیں نادم گنہ گاروں کی خاطر ہے وفا بولی کہ اچھا چل مگر میں اُن پہ مرتی ہوں تو اپنا کام کرجاکرمیں اپنا کام کرتی ہوں پر اتنا یاد رکھنا ہم کسی سے ڈر نہیں سکتے وفا والوں کو دنیا لاکھ مارے مر نہیں سکتے قیامت تک رہے گا نام زندہ میرے دلبر کا زمانہ حشر تک شیدا رہے گا ابن ِحیدر کا حیات ِجاوداں مجھ کو ملی عباس کے دم سے یہ مشعل حشر تک روشن رہے گی سوزش ِغم سے ہر اِک دِل میں گڑے گا اس جواں کی بات کا پرچم وفا والے سنبھالیں گے بریدہ ہاتھ کا پرچم
Nadim Sabri
شاعر: حریت حضرت گلزار احمد نادمصابری نور اللہ مرقدہ