تحریر : ڈاکٹر منصور خوشتر سہ ماہی دربھنگہ ٹائم زکا تازہ ترین شمارہ اس وقت میرے مطالعہ میں ہے۔ اس رسالہ کے مدیر ایک ایسے فعال اور نوجوان شاعر، ادیب اور صحافی ہیں جن پر جس قدر رشک کیا جائے کم ہے۔ ادبی و صحافتی افق پر ڈاکٹر منصور خوشتر کا نام اپنی پوری تابانی اور جلوہ سامانی کے ساتھ روشن ہے۔ اپنی محنت، لگن اور اردو زبان و ادب سے بے لوث محبت کی بدولت ڈاکٹر منصور خوشتر نے ادبی دنیا میں بہت کم عرصے میںہی اپنی ایک شناخت بنا لی ہے۔ ”دربھنگہ ٹائمز” ان کی اسی محنت، خلوص اور زبان و ادب سے ان کی محبت کا ثبوت ہے۔ اداریہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر منصور خوشتر کا مقصد صرف رسالہ نکالنا نہیں ہے بلکہ ایک حساس ادیب کی طرح بدلتے ہوئے سیاسی و سماجی منظرنامہ پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔ اداریہ میں وہ لکھتے ہیں: ”ادب کو اظہار کی آزادی کا وسیلہ سمجھنے والوں نے جس طوفان بدتمیزی کا مظاہرہ کر رکھا ہے کیا اس سے ادب کی طہارت اور عظمت کو خطرہ نہیں ہے؟غلط قسم کے سائنسی و علمی تصورات کی بنیاد پر جو معاشرہ ظہور پذیر ہونا چاہیے وہ ظہور پذیر ہو چکا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم لوگ ایک ملک بھارت کے باشندگان ہیں۔ ہندوستان ہماری سائیکی کا حصہ ہے اور بھارت گیروے رنگ کا نمائندہ۔ ہمارے کچھ نام تاریخ کے افق پر جھلملا رہے ہیں۔ مستقبل میں ان کی تابانی کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ا علان کیا جا چکا ہے کہ اب تاریخ بدلنی ہے۔ اگلا مرحلہ ہمارے ناموں کی تبدیلی کا ہوگا۔ ان سب تبدیلیوں میں کیا ہماری خاموش رضامندی نہیں ہے؟”
رسالہ کی فہرست سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ مدیر نے مضامین اور تخلیقات کی فراہمی اور ان کے انتخاب و ترتیب میں بہت محنت کی ہے۔ رسالہ میں جہاں ایک طرف سعادت حسن منٹواور عصمت چغتائی جیسے اکابرین کے مضامین شائع کئے گئے ہیں وہیں کئی نئے قلم کاروں کو جگہ دے کر مدیر نے اپنی وسعت فکر و نظر کا ثبوت پیش کیا ہے۔ ابو بکر عباد کے مضمون ”مطالعہ منٹو کی نئی جہت” کو منٹو فہمی کے باب میں ایک اضافہ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ انھوں نے منٹو کے افسانے ‘کالی شلوار’، ‘ٹھنڈا گوشت’،’شاردا’،’بو’، ‘جانکی’،’وغیرہ سے بحث کرتے ہوئے منٹو فہمی کی نئی جہات کھولنے کی اچھی کوشش کی ہے۔افتخار راغب کا شمار عصر حاضر کے نمائندہ شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کے مجموعۂ کلام ”غزل درخت” پر ڈاکٹر کلیم عاجز مرحوم کا مضمون تاثراتی نوعیت کا ہے۔ افتخار راغب کی شاعری کے تعلق سے کلیم عاجز کے یہ کلمات بہت اہمیت رکھتے ہیں :
”۔۔۔ یہ اشعار بتا رہے ہیں کہ ان کا خالق کوئی بڑا جدت پسند شاعر ہے کہ اس نے غزل کے ہیرو کی شناخت ہی بدل دی ہے۔ وہ محبوب سے نیازمند بھی ہے مگر بے نیاز زیادہ ہے۔ وہ خود سے زیادہ محبوب کا احترام کرتا ہے۔” احمد اشفاق کے مجموعۂ کلام ”دسترس”پر حقانی القاسمی کے تأثرات پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔حقانی القاسمی لکھتے ہیں : ”احمد اشفاق کی شاعری میں جمالیاتی تجربے کی تہہ داری اور ہمہ گیری ہے۔ یہ صدائے بازگشت نہیں ہے بلکہ اس نئی شعری آواز کی جستجو ہے جو گلوبلائزیشن، اربنائزیشن اور صارفی نظام کے رد عمل کے طور پر ابھری ہے۔” ممتاز شریں نے اپنے مضمون ”طویل مختصر افسانہ، ایک الگ ادبی صنف” میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہیئت اور فنی لوازمات کے نقطۂ نظر سے طویل مختصر افسانہ ‘ناولٹ’ اور مختصر افسانہ کی درمیانی صنف ہے۔ ناصر عباس نیر نے اپنے مضمون” ساختیات کی اہم اصطلاحات” میں ساختیات کی کئی اہم اصطلاحات مثلاً شعریات، متن، مصنف، ارتقائیت وغیرہ پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔پروفیسر عبد المنان طرزی کا شمار بزرگ شعرا میں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر مظفر مہدی نے پروفیسر طرزی کے فکر و فن پر اچھی گفتگو کی ہے۔”فریاد آزر کی غزلوں میں تخلیقی توانائی” ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کا عمدہ تجزیاتی مضمون ہے۔ ”قرأت اور مکالمہ” کے عنوان سے ڈاکٹر کوثر مظہری کا مضمون بہت ہی معلوماتی ہے۔ایک جگہ وہ لکھتے ہیں:
Journalism
”قاری دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک تو عام قاری اور دوسرا نقاد قاری۔ عام قاری کی بھی کئی قسمیں ہو سکتی ہیں اور نقاد قاری کی بھی۔۔۔۔۔۔ ایک قاری غالب کا شعری متن پڑھ کر ایک معنی اخذ کرتا ہے اور جب وہ اسی شعری متن کی مختلف تشریحات کا مطالعہ کرتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ گیان چند جین نے کچھ اور معانی اخذ کئے ہیں تو فاروقی نے کچھ اور۔ حسرت موہانی نے ایک معنی اخذ کیا ہے تو سُہا مجددی نے دوسرا معنی مراد لیا ہے۔ وہی متن جب ترجمہ نگاروں کے ہاتھ لگ گیا ہے تو عینی آپا اور سردار جعفری کچھ اور معنی اخذ کرتے ہیں تو محمد ذاکر اور سرفراز نیازی کچھ اور۔۔۔۔۔۔۔ بے چارہ مصنف جو متن بنانے والا ہے، وہ منھ کھولے حیرت زدہ اپنے متن کی اس کثیر الجہات معنویت پر خوش ہوتا ہے اور کبھی کبھی شرماتا بھی ہے۔”
ڈاکٹر صفدر امام قادری نے اپنے مضمون”مولانا آزاد: جدید ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم کے معمار اول”میں مولانا آزادی کی تعلیمی بصیرت کا خوب صورتی سے جائزہ لیا ہے۔ صفدر امام قادری خود بھی ایک تجربہ کار استاد ہیں۔ ان میں قومی و سیاسی بصیرت بھی ہے۔ مذکورہ مضمون میں انھوں نے کئی اہم نکتوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ مثلاً ایک جگہ لکھتے ہیں: ”یہ یاد رکھنا چاہیے کہ نالندہ یونیورسٹی میں جب آگ لگی تو آس پا س کے لوگوں نے یونیورسٹی کو جلتے رہنے دیا۔ کسی نے بھی بڑھ کر اسے بچایا نہیں۔ ایسا صرف اس لیے ہوا کہ قدیم نالندہ یونیورسٹی ایک خاموش تعلیمی جزیرہ بن کر رہ گئی تھی۔ وہاں اس فکر اور اُن مذہبی علوم کی تدریس ہو رہی تھی، جو باہر کی دنیا سے بے پروا تھی۔۔۔۔۔۔ نالندہ یونیورسٹی نے ماحول اور معاشرے سے کٹ کر درس و تدریس کا جو سلسلہ شروع کیا، اسی وجہ سے معاشرے نے مصیبت کی گھڑی میں اُسے بچایا نہیں۔ ورنہ کیسے ممکن تھا کہ چند لوگ آگ لگا دیں اور مہینوں لائبریری کی نادر کتابیں جلتی رہیں اور آس پاس کی آبادی سے کوئی بچانے کے لیے بھی سامنے نہ آئے۔”
رسالہ میں سید زبیر شاہ، خورشید حیات، شمیم قاسمی، یاسمین رشیدی، دانیال طریر، محمد نور الہدیٰ، اکرم پرویز، ڈاکٹر احسان عالم اور بدر الدجی کے مضامین بھی شامل ہیں۔ نعیم بیگ، علی اکبر ناطق، سیمیں درانی، پرویز شہریار، فرخ ندیم، ماہ جبین صدیقی، دیبک بدکی، سبین علی اور احمد نثار کے افسانے فکر و فن کے اعتبار سے معیاری افسانے کہلانے کے لائق ہیں۔ منظومات کے حصہ سے قبل چار شعرائے کرام علامہ جمیل مظہری، عطا عابدی، سید عقیل شاہ اور افروز عالم کی منتخب غزلیں شاملِ شمارہ کی گئی ہیں۔ جمیل مظہری کی غزلوں پر ڈاکٹر جمال اویسی کا مختصر نوٹ بھی ہے۔ اسی طرح عطا عابدی اور سید عقیل شاہ کی شاعری پر ڈاکٹر منصور خوشتر نے مختصر لفظوںمیں روشنی ڈالی ہے۔
Book
کیا ہی اچھا ہوتا اگر افروز عالم کی غزلوں سے قبل ان کی شاعری پر بھی چند سطور کا اضافہ کر دیا جاتا۔ عالم خورشید، زہرا نگاہ، پرویز شہریار اور ابن عظیم کی نظمیں متاثر کرنے والی ہیں۔غزلوں میں احمد سہیل، ساجد حمید، مرزا اطہر ضیا، ندیم ماہر، ذو الفقار نقوی، احسان ثاقب، مسعود تنہا، عزیز بلگامی، شوکت علی ناز، جنید عالم آروی کے نام شامل ہیں۔ رسالہ کے آخری صفحات پر کتابوں پر تبصرے اور مراسلات کو جگہ دی گئی ہے۔ ڈاکٹر منصور خوشتر ایک وسیع القلب شخصیت کا نام ہے۔ زیر نظر شمارہ سے بھی ان کی وسعت فکر و نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔ انھوں نے زیادہ سے زیادہ مضامین اور تخلیقات کو رسالہ میں شامل کرنے کی کوشش کی ہے۔ رسالہ مجموعی اعتبار سے بالکل مکمل ہے۔ البتہ کہیں کہیں پروف ریڈینگ کی کمی کا احساس ہوتا ہے۔ بہر حال! ڈاکٹر منصور خوشتر اپنی بے پناہ مصروفیات کے باجود ایک معیاری رسالہ نکالنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ادب کا ذوق رکھنے والے افراد کے لیے ”دربھنگہ ٹائمز ” کسی تحفہ سے کم نہیںہے۔ کامیاب رسالہ کی اشاعت پر انھیں دل کی عمیق گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔260 صفحات پر مشتمل اس شمارہ کی قیمت صرف 100روپے ہے۔
رسالہ اردو کے سبھی بک اسٹال پر دستاب ہے۔علمی و ادبی حلقوں میں اس رسالہ کی پذیرائی کو دیکھ کر امید کی جا سکتی ہے کہ جلد ہی رسائل و جرائد کی دنیا میں ”دربھنگہ ٹائمز” اپنی ایک شناخت بنانے میں کامیاب ہو جائے گا۔واضح رہے کہ دربھنگہ ٹائمز کا اگلا شمارہ ”افسانہ نمبر” ہوگا۔ قلم کار حضرات خصوصاً نئے لکھنے والے اور ریسرچ اسکالر اس خصوصی شمارہ کے لیے مشاہیر افسانہ نگاروں پر اپنے تنقیدی مضامین ضرورارسال فرمائیں۔
نئے لکھنے والے خاص طور سے ریسرچ اسکالرز اکثر یہ شکایت کرتے ہیں کہ آئی ایس ایس این نمبر والے رسالوں کے مدیران مضامین کی اشاعت میں ناز نخرے دکھاتے ہیں۔ ڈاکٹر منصور خوشتر خود بھی نوجوان ادیب ہیں ۔ نئے لکھنے والوں کے مسائل سے وہ اچھی طرح واقف ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ افسانہ نمبر کے لیے انھوں نے نئے لکھنے والوں کو خاص طور سے مدعو کیا ہے۔ مدیر موصوف کی اس قدم کی بھی ستائش کی جانی چاہیے۔