کیا ہوا۔۔۔۔؟ امن کے سب پیمبر کہاں کھو گئے؟ وہ جو نغمے محبت کے گاتے تھے اور جن کی آواز سے نفرتوں کے اندھیرے بھی چھٹ جاتے تھے فاصلے سارے پل میں سمٹ جاتے تھے شاعرو، صوفیو! تم بھی خاموش ہو۔۔۔۔۔؟ اب تمہارے یہاں کوئی ساحرؔ نہیں؟ کوئی نانکؔ نہیں، کوئی چشتیؔ نہیں؟ تم اگر چاہ لو وقت کے بہتے دریا کا رُخ موڑ دو اور نفرت کے ہر ایک بت توڑ دو جنگ سے مسئلے حل ہوئے تھے، ہوئے ہیں نہ ہو پائیں گے گھر ہمارے جلے تو تمہارے بھی گھر تک دھواں جائے گا لاش اور خون، آہ بکا سے بصارت، سماعت کو کس کی قرار آئے گا؟ شاعرو! صوفیو! عقل والو ! اٹھو ۔۔۔ اس سے پہلے کے نفرت کی چنگاریاں آگ بن جائیںاور گھر ہمارے جلیں، گھر تمہارے جلیں۔۔۔۔ ایسی چنگاریوں کو بجھا ڈالیں ہم شاعرو، صوفیو، عقل والو! اٹھو