اردو زبان و ادب کے ممتاز معلم ، شہرہ آفاق شاعر، اقبال شناس، ماہر تعلیم اور معروف سوشیالوجسٹ پروفیسر جلیل عالی، علمی و ادبی حلقوں میں منفرد حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ وہ سنجیدہ فکر غزل گو، بلند پایہ نقاد، خوبصورت نعت لکھنے والے اورپر تاثیر نظم کہنے والے ایک بے باک شاعر، شستہ اور نفیس مزاج ادیب ہیں۔ ”جلیل عالی ”کے قلمی نام سے شہرتیں سمیٹنے والے شاعر کا اصل نام محمد جلیل عالی ہے۔ وہ 1946ء کو امرتسر (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ تشکیلِ پاکستان کے وقت ان کی عمر اڑھائی برس تھی ۔ان کے والد ڈسٹرکٹ امرتسر مسلم لیگ کے وائس پریذیڈنٹ تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ ہجرت کر کے لاہور آگئے ۔ پھر تھوڑے دن بعد یہاں سے گوجرانوالہ چلے گئے ۔ دو سال بعد ان کے ایک عزیز نے کوٹ رادھا کشن بلا لیا۔
پروفیسر جلیل عالی نے پرائمری تک درختوں کے نیچے خالی زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کی۔ پھر قصبے سے دور گورنمنٹ ہائی سکول کوٹ شیر سنگھ سے میٹرک کیا ۔یہ سکول ان کے گھر سے تقریباً3 کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔انہوں نے انٹر گورنمنٹ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ اور بی اے ایم اے او کالج لاہور سے کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو اور ایم اے سوشیالوجی کیا۔ ایم اے اردومیں نامور شاعر امجد اسلام امجد ان کے کلاس فیلو اور بنچ میٹ تھے۔ انہوں نے انٹر سے ڈبل ایم اے تک ہاسٹل لائف گزاری۔ دوسرے ایم ایے (سوشیالوجی) کی طالب علمی کے زمانے میں یونیورسٹی میگزین ”محور” کے مدیر رہے۔ اس دوران ان کا پہلا انٹرویو بطور طالبِعلم مدیر ، نوائے وقت میں شائع ہوا۔شاعری میں باقاعدہ اصلاح کسی سے نہیں لی۔
انہیں اس زمانے کے اکابرینِ ادب جن میں احمد ندیم قاسمی، وزیر آغا، افتخار جالب، ڈاکٹر سید عبداللہ، جیلانی کامران، مظفر علی سید، حفیظ تائب، اسلم کمال، احسان دانش، سید محمد کاظم ، ڈاکٹر برہان احمد فاروقی، سجاد باقر رضوی، سید وقار عظیم، ڈاکٹر وحید قریشی، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، کشور ناہید، قتیل شفائی، جمیل الدین عالی ، شریف کنجاہی، اختر حسین جعفری، آفتاب اقبال شمیم، خالد احمداورسجاد میر کی قربت حاصل رہی۔ جلیل عالی نے 1969ء میں تعلیم مکمل کی اور 1970ء میں ان کا تقرر بطور لیکچرار ایف جی کالج واہ کینٹ میں ہو گیا۔ یہاں ساڑھے آٹھ برس تک وہ تدریسی خدمات سر انجام دیتے رہے۔ پھر اس کے بعد 1979سے 2002 ء تک انہوں نے ایف جی سر سید ڈگری کالج راولپنڈی میں تدریسی خدمات سر انجام دیںاور 2002ء میں ریٹائرڈ ہو گئے۔
جلیل عالی فطری شاعر ہیں ان کے اشعار میں حساسیت کا رنگ غالب ہے ان کی شاعری کسی ایک موضوع تک محدود نہیں بلکہ وہ اپنی شاعری میں فطرت کے تمام مناظر پر بات کرتے اور قدرت کے تمام پہلوؤں پر غورو فکرکرتے نظر آتے ہیں ۔ کہیں وہ کرب اور محرومی کا تذکرہ کرتے ہیں۔ تو کہیں امید اور خوشی کے موضوع پر شعرکہتے دکھائی دیتے ہیں
دھن ہے کہ سجے گھر بھی ، دل میں ہے مگر ڈر بھی دیوار نہ گر جائے تصویر بدلنے سے جلیل عالی کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ایک منجھے ہوئے دانشور اور فلسفی کی طرح زندگی کے ہر زاویے اور وقت کی ہر کروٹ پر پورا دھیان اور پوری توجہ رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ کبھی اگر حد سے باہر نکل کر سوچنے کی آرزو بھی کرتے ہیں تو ساتھ اندیشوں اور انہونیوں کو بھی ذہن میں رکھ لیتے ہیں ۔
دل آباد کہاں رہ پائے اس کی یاد بھلا دینے سے کمرہ ویراں ہو جاتا ہے اک تصویر ہٹا دینے سے
وہ اپنے اشعار میں معاشرتی ناہمواریوں کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ سماج کو بدلنے کی خواہش اور اس حوالے سے عملی تدابیر ان کے شعری حسن کو جہاں دوبالا کرتی ہیں وہاں ان کے اندر کی انقلابی سوچ کا اظہاریہ، ایک سچے اور آفاقی پیغام کی شکل میں ہم تک پہنچتا ہے۔
تیرے ہاتھوں بہت ہو لی سبکساری ہماری تجھے مہنگی پڑے گی اب دل آزاری ہماری زمانوں سے ہمارے کھیت محرومِ نمو ہیں ہمیشہ چھین لیتا ہے کوئی باری ہماری ہم اُس سردار کے شانوں پہ سر دیکھیں گے کب تک عدو کے سامنے جس نے انا ہاری ہماری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نکلے گا کوئی رستہ تدبیر بدلنے سے ملتی نہیں آزادی زنجیر بدلنے سے اس شہر کی سیرت میں کچھ فرق نہیں پڑتا بس جرم بدلتے ہیں تعزیر بدلنے سے جلیل عالی روانی اور تسلسل کے ساتھ اپنے مخصوص شعری لب و لہجے میں سنجیدگی سے بات کرنے کے ہنر پر دسترس رکھتے ہیں۔ ثبوتِ اشتیاق ہمرہی لاؤ تو آؤ حصارِ ذات سے باہر نکل پاؤ تو آؤ زمانوں سے فقط لہریں گمانوں کی گنو ہو کسی دن تم یہ دریا پار کر جاؤ تو آؤ حدِ خواہش میں جینا ہے تو جاؤ راہ اپنی نہ دشتِ شوق کی وسعت سے گھبراؤ تو آؤ
جلیل عالی کا، شعری اسلوب پڑھنے والے کو ورطہ ء حیرت میں ڈال دیتا ہے ۔ وہ الفاظ کو یکسر نئے انداز ، نئے رنگ ڈھنگ اور نئے قرینے اور سلیقے سے اپنے اشعار میں ڈھالنے کے فن میں مہارت رکھتے ہیں۔اسی حوالے سے ان کی یہ دو غزلیں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔
نہ جانے کونسے بدلے اتارتی رہی ہے یہ زندگی ہمیں قسطوں میں مارتی رہی ہے اِدھر اُدھر کی عبث خاک چھانتے پھرے ہیں جدھر جدگر ہمیں قسمت ہنکارتی رہی ہے بھٹک رہی ہے خجل خواہشوں کے غاروں میں وہ جستجو جو ستارے شکارتی رہی ہے کسے حقیقتِ نیرنگیِ جہاں کی خبر ازل سے وقت کی فطرت بجھارتی رہی ہے ہمارے سر سے بلائیں کہاں ٹلی ہوتیں یہ اپنی ماں کہ جو صدقے اتارتی رہی ہے اک اور بادِ بیاباں اک اور یادِ غزال وہ پھونکتی رہی ہے یہ بہارتی رہی ہے جہاں میں تھے ہی نہیں جب تو کیا پتہ پاتی قضا کہ نام ہمارا پکارتی رہی ہے کہاں کسی سے کبھی رازِ دل کہا عالی یہ شاعری کہ ہمیں اشتہاارتی رہی ہے
______________
کہانی بے سرو پا روز اک تحریر تے ہو ہم ایسے تو نہیں جیسا ہمیں تشہیرتے ہو دکھاتے ہو ہمیں سب عکس من مرضی مطابق حقیقت اور ہے تم اور کچھ تصویرتے ہو کوئی معیارِ نیک و بد نہیں کُھلتا تمہارا کسے تحقیرتے ہو اور کسے توقیرتے ہو فلک سے تم پہ یہ کیسا عذاب اترا ہوا ہے اُسے مسمارتے ہو خود جسے تعمیرتے ہو تمہارے ساتھ کوئی گفتگو ہو بھی تو کیسے ذرا سی بات پر تم دیر تک تقریرتے ہو اِسی کو مصرفِ ایماں سمجھ رکھا ہے تم نے کہ کوئی اختلافے تو اُسے تکفیرتے ہو میاں یہ دل ہے ایسے صید ہو سکتا نہیں ہے عبث دنیا کے رنگوں میں اسے زنجیرتے ہو کہو کہتے ہوئے کیا کیا گزر جاتی ہے دل پر کہ جس سے سننے والوں کے کلیجے چِیرتے ہو سخن کو سونپتے ہو کیسے کیسے انگ عالی کہیں اقبالتے ہواور کہیں پر مِیرتے ہو
ان کی شاعری سچے جذبات کی ترجمان ہے۔گویا ان کا کلام، ان کے قلم سے صفحہ قرطاس پر وجدانی کیفیت میں اترتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار نظر سے گزرتے ہی دل میں اترتے جاتے ہیں۔ جلیل عالی کی شاعری میں حقائق کا ادراک ہی نہیں ملتا بلکہ وہ شاعری کو ذریعہ اظہار بنا کر شعوری فکر کی بنیاد رکھ دیتے ہیں۔ وہ ایک ایسے راستے کی نشاندہی کرتے ہیں جو ابدی سچائیوں کی جانب جاتا ہے۔ میں نے جتنا ان کی شاعری کا مطالعہ کیا ہے، مجھے درحقیقت مجموعی طور پر وہ ایک ”تحریکی شاعر” محسوس ہوئے ہیں۔ ایسی تحریک جس کا بنیادی نصب العین اور منشور یہ ہو کہ تمام سماج برابری کی سطح پر قائم ہونا چاہئے ۔ ان کی شاعرانہ فکر کا تجزیاتی مطالعہ، ان کے شعوری فکرکے تسلسل کی تفصیل اور شرح یہی ہے ۔ وہ اپنے شعری بیانیے میں تصنع اور بناوٹ کے قائل نہیں ہیں بلکہ اصول کی دہلیز پر کھڑے ہو کر وہ رواداری ، انصاف ،بہادری اور جرأت مندی کے ساتھ واشگاف انداز میں اپنا مدعا بیان کرتے ہیں۔ جلیل عالی کے بہت سارے اشعار مقبولِ عام اور زبانِ زدِ خاص وعام ہیں۔ ان کا یہ شعر ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے۔
میرے دشمن کو ضرورت نہیں کچھ کرنے کی اس سے اچھا تو میرے یار کیے جاتے ہیں
انہوں نے جب شعر کہنے کی ابتدا کی تو اس زمانے کے جید شعرا ء ،اردوشاعری کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہے تھے۔ لیکن جلیل عالی کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے ان سب کی موجودگی میں اپنی شاعری کی جداگانہ پہچان کو تسلیم کرایا ۔یقینا اُن کی یہ بے نظیر صلاحیت انھیں اردو کا ایک ممتاز اور نامور شاعر ماننے پر مجبور کر دیتی ہے۔ انہوں نے زبان و بیاں کے بھی ایسے خلاقانہ اور کامیاب تجربے کئے ہیں کہ اردو شعری دنیا میں ان کے منفرد اور بلند مقام و مرتبے کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔
پروفیسر جلیل عالی کا تخلیقی سفر ابھی جاری و ساری ہے ۔ ان کی تصنیفات و تالیفات میں ”خواب دریچہ ( شعری مجموعہ )1984، شوق ستارہ ( شعری مجموعہ) 1998، عرضِ ہنر سے آگے (شعری مجموعہ)2007، لفظ مختصر سے مرے(انتخاب کلام جلیل عالی از خاور اعجاز) 2016، نور نہایا رستہ( مجموعہ نعت) 2018، پاکستانی ادب (شعری انتخاب برائے اکادمی ادبیات پاکستان) 2002، پاکستانی ادب(شعری انتخاب برائے اکادمی ادبیات پاکستان) 2005 قابلِ ذکرہیں جبکہ زیرِ ترتیب و اشاعت کتب میں منطق نہیں بنتی (اردو نظمیں) ، ایک لہر ایسی بھی (اردو غزلیں) ، شعری دانش کی دھن میں(منتخب تنقیدی مضامین)، عشق دے ہور حساب(پنجابی شعری مجموعہ) شامل ہیں۔ ان کے شعری مجموعے ” عرضِ ہنر سے آگے” کو احمد ندیم قاسمی ایوارڈ ٢٠٠٧ اور پاکستان رائٹرز گلڈ ایوارڈ ( ٢٠٠٥ تا ٢٠٠٧) کا حق دار قرار دیا گیا۔ اور ان کے حمد و نعت کے مجموعے ” نور نہایا رستہ” کو اوّل سیرت ایوارڈ ١٤٤١ ہجری کا اعزاز حاصل ہوا ۔ حکومت پاکستان پروفیسر جلیل عالی کو ان کی ادبی خدمات کے صلہ میں تمغہ امتیاز سے نواز چکی ہے۔
جلیل عالی کے ان خوبصورت نعتیہ اشعار کے ساتھ اس مختصر مضمون کا اختتام کیا جاتا ہے۔ قطرے سے ہو کیا مدحتِ دریا مِرے آقا ۖ مقصود ہے بس عرضِ تمنا مِرے آقاۖ میں محوِ سفر ہوں تِری یادوں کے جلومیں تو ہی مِری منزل مِرا رستہ مِرے آقاۖ آباد ہے اک سرمدی احساس کنارے سینے میں تِرا شوق مدینہ مِرے آقاۖ رکھ سایۂ رحمت مین کہ منسوب ہیں تجھ سے میں اور مرا چاند ستارہ مرے آقاۖ اشکوں کی روانی میں یہی وردِ زباں ہے آقاۖ مرے آقأ مرے آقأ مرے آقاۖ