محبت عام کرنا چاہتا ہوں

Prof. Dr. Umar Qiaz

Prof. Dr. Umar Qiaz

تحریر: لقمان اسد

بلاشبہ تخلیق کار کسی بھی خطے کا سرمایہ اور اثاثہ ہوتے ہیں۔ وہ نفرتیں مٹانے اور محبت عام کرنے کی سعی اور لگن میں دن رات کوشاں اور سدا سرگرم عمل رہتے ہیں ۔قدرت نے انھیں بے مثال حکمت و دانش اور بے نظیر فہم و فراست سے نوازا ہوتا ہے۔ بلند و بالا کہساروں ، حد درجہ حسیں نظاروں اور نظروں کو خیرہ کردینے والی دلکش آبشاروں کی سرزمین وطن عزیز کے صوبہ خیبر پختون خواکو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں پر کئی نامی گرامی ادباء شعراء ، ماہرین و اکابرین علم و ادب نے جنم لیا ۔اسی دھرتی سے تعلق رکھنے والے ایک قابل فخر سپوت ،اردو اور پشتو زبان کے ممتاز، مایہ نا ز ، معروف اور بلندپایہ نقاد ، محقق، دانش ور،شاعر ادیب پروفیسر ڈاکٹر عمرقیاز قائل کا حال ہی میںشائع ہونیوالا اردو غزلیات پر مشتمل شعری مجموعہ “محبت عام کرنا چاہتا ہوں”میرے سامنے ہے۔ آپ کا شعری اسلوب اور طرزبیاں اس قدر پرفکر ، سنجیدہ اور لطافت سے بھر پور ہے کہ ایک بار شاعری کا مطالعہ شروع کریں تو مکمل کتاب پڑھے بغیر ذہن و قلب کو راحت میسر نہیں آتی۔ تمام شاعری گہری فکر سے مزین و آراستہ ہے۔

میں جو اس بار ہوائوں کی حمایت کرتا
کو ن جلتی ہوئی شمعوں کی حفاظت کرتا

آ پ امید ، روشنی ۔ جدوجہد اور عمل پر یقین رکھنے والی پرعزم شخصیت ہیں اور یہی درس وپیغام آپ کے تخلیقی شعور کا محور اور مرکزی خیال ہے ۔

سوچ آزاد ہے یادوں کے بیابانوں میں
ہجر میں بھی اسے زندان نہیں کرپایا

آپ کے شعری بیانیے میں انسانیت سے بے لوث ہمدردی اور معاشرے کے محروم اور پسے ہوئے طبقات س محبت کا رنگ نمایاںطور پر ملتاہے ۔

سبھی کاروگ کلیجوں میں ڈھال لیتے ہیں
جو گرپڑے تو اسے ہم سنبھال لیتے ہیں

محاصر صورتحال سے پوری طرح باخبر اور آگاہ رہتے ہیں اور اس حوالے سے اپنے احساسات کو نہایت عمدگی کے ساتھ موضوع سخن بنا کر شاعری کی شکل میں قلمبند کرتے ہیںلیکن یہاں بھی وہ امید کا دامن نہیں چھوڑتے اور مایوسی کو قریب نہیں بھٹکنے دیتے بل کہ تیز تر طوفانوںاور زیست کے نشیب و فراز و مدجزر کے سامنے حوصلے اور صبر کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے رہنے کا پیغام دیتے ہیں۔آپ اس حوالے سے عالمی شہرت یافتہ، بلند مرتبت،قد آوراور قادرالکلام شاعر احمد فراز کے اس نظر یہ اور فلسفہ کے قائل ہیں :

شکوئہ ِظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

ڈاکٹر عمر قیاز، احمد فراز کی اسی فکر، سوچ اور فلسفے کے روشن تسلسل کو اپنے انداز میںلیکر آگے بڑھ رہے ہیں:
کھڑا ہوں ضبط کی سرحد پہ اس طرح قائل
کہ جیسے جلتی ہوئی قندیل ِشب ہوائوں میں
آپ کی شاعری میں شاعرانہ روایتی طرز فکر او رشعری شعور کا رنگ بھی جا بجاملتا ہے۔مرزا اسد اللہ خان غالب نے کہا تھا :
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کروگے لیکن
خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک

اِسی طرح ڈاکٹر عمر قیاز قائل کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے
نظر کے زخم جگر تک اُتر گئے ہوں گے
تُوآئے گا تو دکھی لوگ مرگئے ہوں گے

کائناتِ علم و ادب میں شہرت کے بامِ عروج پرپہنچنے والے ڈاکٹر عمر قیاز قائل کا اصل نام عمرقیاز خان ہے ۔ آبائی علاقہ اسماعیل خیل سورانی بنوں ہے ۔ آپ کے والد امیر علی خان نے روزگار کے سلسلہ میں کچھ برس کراچی میں قیا م کیا ۔ ڈاکٹر عمر قیاز قائل 3اگست1980کوروشنیوں کے شہر میں پیدا ہوئے۔آپ کی پیدائش کے ایک دوبرس بعد ہی آپ کے والد اپنے پورے گھرانے کے ساتھ اپنے آبائی علاقہ میں واپس آگئے اور یہیں پر مستقل سکونت اختیا ر کرلی۔ڈاکٹر عمر قیاز نے اپنی ابتدائی تعلیم آبائی علاقہ سے حاصل کی ۔1995ء میں گورنمنٹ ہائی سکول نمبر 2بنوں سے میٹرک ،1997ء میں گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج بنوں سے انٹر اور1999میں اسی کالج سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔2002ء میں شعبہ اُردو جامعہ پشاور سے اُردُو ادب میں ماسٹر کی ڈگری امتیازی نمبروں سے حاصل کی۔2012ء میں شعبہ ء اُردُو قرطبہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈیرہ اسماعیل خان سے پروفیسر محمد طہٰ خان” شخصیت ، ادبی خدمات “کے موضوع پر تخلیقی و تنقیدی مقالہ لکھ کر امتیازی نمبروں سے ایم ۔فل کی ڈگری حاصل کی اور 2016میں شعبہ ء اُردُو جامعہ پشاور سے “شہزاد احمد کی علمی و ادبی خدمات کا تخلیقی وتنقیدی جائزہ “کے موضوع پر ایک ہزار صفحات پر مشتمل ضیخم تحقیقی مقالہ لکھ کر برصغیر پاک وہند میں اِس موضوع پر اولیتّ کے منفرد اعزازکے ساتھ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔2003ء سے لیکر 2006ء تک گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج بنوں ، گورنمنٹ ڈگری کالج میرعلی شمالی وزیرستان ایجنسی اور گورنمنٹ ڈگری کالج نمبر2بنوں میں بحیثیت اُردو لیکچرارکنٹریکٹ پر تعینات رہے۔

2007ء میں پبلک سروس کمیشن خیبرپختونخوا کے ذریعے بحیثیت اُردو لیکچرار(ریگولر)تقرر ہوا اور 2014ء میں اسسٹنٹ پروفیسر(شعبہء اُردو) پروموٹ ہوئے اور اب بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر شعبہ ء اُردوگورنمنٹ کالج آف مینجمنٹ سائنسزنمبر1بنوںمیں اپنی خدمات احسن انداز میں انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے شاعری کا باقاعدہ آغاز 1996ئمیں کیا جب وہ فرسٹ ائیر کے طالب علم تھے ۔فَنِ شاعری کے حوالے سے آ پ کے اساتذہ میں آ پ کے علاقہ کے معروف شاعر اسلم اَسّا اورشجاعت علی راہی شامل ہیں۔ آ پ کا اولین شاعری مجموعہ “محبت عام کرنا چاہتا ہوں “فروری 2021میں شائع ہوا اِ س کے علاوہ اکادمی ادبیات پاکستان کے اشاعتی منصوبے “پاکستانی ادب کے معمارکے تحت آپ کی دوسری کتاب “پروفیسرمحمد طہٰ خان :شخصیت اور فن” 2019ء میں اکادمی ادبیات پاکستان نے شائع کی۔ پشتو شاعری پر مشتمل چار کتابیں زیرطبع ہیں۔ 2درجن سے زائد تحقیقی و تنقیدی مقالات ملک کے مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوچکے ہیں ۔ اِسی طرح معروف ادیب شہزاد احمد کی شخصیت اور خدمات پر آٹھ کتابیں زیرترتیب ہیں۔آپ کا قلمی سفر پوری آب وتاب کے ساتھ جاری و ساری ہے دعا ہے کہ ڈاکٹر عمر قیاز قائل اسی لگن اور دلجمعی کے ساتھ گلشن ِ اد ب کی آبیاری کرتے رہیں۔آپ کے اِن خوبصورت اشعار کے ساتھ اختتام :

میری حیات میں یہ یادگار باقی ہے
کہ تو نہیں ہے مگرتیر ا پیار باقی ہے
نظارے ڈوب گئے موسموں کی وحشت میں
وہ اِ ک چٹان وہ اِک آبشار باقی ہے

Luqman Asad

Luqman Asad

تحریر: لقمان اسد