تحریر: ندیم عارف شاعری خوشبو کا جھونکا ہے جو انسانی دل و دماغ کو معطر کرتی ہے اور ذہنوں ذہنوں سفر کرتی ہے اٹھارہویں اور سیارہویں صدی عیسوی میں ہماری ملی زندگی اور اسلامی تہذیب و ثقافت سے تاب و توانائی لیکر ہمارے پنجابی شعراء نے اسلامی تعلیمات کی ترویج اشاعت کی انہوں نے توحید و رسالت، جزا و سزا، اتفاق و اتحاد اور اخوت و محبت کے مطلب عام فہم اور دل پذیر انداز میں بیان کئے انہوں نے فکر و احساس کی شمعیں جلائیں خود شناسی کا جذبہ پیدا کیا فرقہ پرستی، تنگ نظری بعض و حسد، نفاق و انتشار، مکرو فریب، غرور و نخوست اور کمینگی اور دلیری جیسی روحانی بیماریوں سے بچنے کا درس دیا اور لوگوں کے دلوں میں ایمانی جذبے کی پرورش کی اور اپنی سیرت سے لوگوں کے اخلاق بھی سنوارنے کا اہم فریضہ سرانجام دیا بابا فرید گنج شکر نے اپنے کلام میں جو جدید پنجابی زبان کی ترویج کی بعد ازاں وہی زبان ریختہ اور اردو کہلائی جدید تحقیق کے مطابق بابا فرید اردو کے پہلے شاعر تسلیم کئے گئے ہیں کیونکہ اردو پنجابی کا جدید روپ ہے
جبکہ پنجابی اس کا قدیم سنگھار ہے اس تاریخی پس منظر میں بابا بلھے شاہ اور میاں محمد بخش کے فکرو فن پر اظہاریہ پیش خدمت ہے بھلے شاہ کا اصل نام عبد اللہ شاہ تھا وہ مغلیہ دور میں 1680 میں اوچ گیلاتیاں میں پیدا ہوئے اور وہ بعد ازاں قصور کے قریب پانڈو میں منتقل ہو گئے ابتدائی تعلیم یہی سے حاصل کی قرآن ناظرہ کے علاوہ گلستان بوستان، منطق، نحو، معانی اور دیگر علوم کے اہم کتب سے وہی سے فیض یاب ہوئے شاہ عنایت کے ساتھ آپ جنون آمیز رشتہ ہے آپ کا تعلق قادریہ مکتبہ سے تھا جبکہ آپ کی ذہنی نشوونما میں شطاریہ فکر نے نمایاں کردار ادا کیا اور آپ کی باغبانہ شاعری شطاریوں سے مستعار ہے ظاہر پسندی پر تنقید و طنز ہم وقتپ کی شاعری منفرد اسلوب تھا آپ کے کلام میں عشق ایک ایسی قوت بن کر سامنے آتا ہے جس کے سامنے کوئی دنیاری بند نہ باندھا کا سکا بلھے شاہ کی شاعری عالمگیری عقیدہ پرستی کے خلاف ایک ردعمل ہے بلھے شاہ کی شاعری میں امن و آشتی، انسان دوستی اور عالمگیر محبت کا درس ملتا ہے ان کا انتقال 1757 قصور میں ہوا اور یہیں دفن ہوئے کلام سے انتخاب پیش خدمت ہیں
Urdu Poetry
برتن لوہے دی کدی ٹٹ دے نئیں مالی اپنے باغ نوں کدی پٹدے نئیں
ٹٹ جاندے نیں کئی واری لہو دے رشتے پر رشتے یاری دے کدی ٹٹ دے نئیں
علم پڑھیاں اشراف نہ ہو ون جیہڑے ہوون اصل کمینے پتل کدی نئیں سونا بندا بھانویں جڑیئے لعل نگینے
شوم تھیں کدی نئیں صدقہ ہوندا پاویں ہوون لکھ خزینے بھلیا بھاج توحید نئیں جنت ملکی بھانویں مرئیے وچ مدینے
کجھ بغض دی ریت وچ نئی ملدا کجھ ہارتے جیت وچ نئی ملدا
مخلوق خدا سے پیار تو کر رب صرف میت وچ نئی ملدا
اردو اور منظوم ترجمہ پیش خدمت ہے بقول شاعر
سب سے بڑی عبادت انسان سے پیار کرنا اپنا لہو بہا کر دوسروں کی مانگ بھرنا
بلھے شاہ کہتے ہیں نہ کر بندیا میری میری
نہ تیری نہ میری چار دناں دا میلہ
دنیا فیر مٹی دی ڈھیری
اور اپنا منظوم اظہاریہ اردو ترجمہ کی صورت میں نذر قارئین ہے
نہ رہے گی ہستی نہ کوئی پستی ملیں گے خاک میں سب ایک دن
سیف الملوک ایک تخیلاتی کہانی ہے جس کے معانی سلاطین کی تلوار ہے خالق سیف الملوک محمد بخش 1830 عیسوی میں پیدا ہوئے اور 22 جنوری 1907اس جہاں فانی کوچ کر گئے آپ پیدائش چک ٹھاکرہ موضع مقبرہ پیر شاہ غازی کھڑی شریف میرپور میں ہوئی آپ کے آباء اجداد موضع چک لراہم گجرات سے یہاں منتقل ہوئے تھے آپ نے ابتدائی قریب قصہ سموال کی درسگاہ سے حاصل کی وہاں کے مدرسہ سے آپ نے فقہ، حدیث، قرآن کی تفسیر کے علاوہ روی کی مثنوی اور جامی کی زیلخا جیسی کتب کا مطالعہ کیا اس زمانے عربی فارسی کا سیکھنا ایک عالم شخص کیلئے بے حد ضروری تھا انہوں نے دونوں ذبانوں پر عبور حاصل کیا یہ بات قابل ذکر ہے حقیقت میں ان دو زبانوں پر اس دہرتی کا حق ہے اور دھرتی والوں کا ان دوز بانوں پر آپ نے اٹھارہ کتابیں پنجابی زبان میں لکھی ہیں اور تزکرہ حتییجہ ایک کتا صرف فارسی میں لکھی آپ نے عارفانہ کلام میں جو زباں استمال کی وہ سادہ اور پڑ کارئے قومی اور غلامی زبانوں کا اس میں لوچ اور خوبصورت امتراج ہے
لوئے لوئے بھرلے کڑے جے تدھ بھانڈا بھرنا شام بیٹی بن شام محمد گھر جاندی نے ڈرنا
اسی خیال کو ابن انشاہ یوں پیش کرتے ہیں کہ
شب بیتی چاند بھی ڈوپ چلا زنجیر پڑی دروازے پر کیوں دیر گئے گھر آئے ہو سجنی بے کروگے بہانہ کیا
میاں محمد بخش کے کلام سے انتحاب میش خدمت ہے
دشمن مرے تے خوشی نہ کرئیے سجناں وی مرجاناں ڈیگرتے دن ہویا محمد اوڑک تون ڈب جاناں
نیچاں دی انتہائی کولوں قیض کسے نئیں پایا ککرتے انگور چڑہایا ، ہر گچھا زخمایا
کچ وی مٹکا لعل مٹکا ، ہکوزنگ دو ہاں دا جد صرافاں اگے جاون، فرق ہزار کو ہا ں دا
مشکل دی ہر کچی یا روہتھ مردان آئی مرد نگاہ کرن جس ویلے دیر نہ لگدی کائی
آخر میں ایک شعر میاں محمد بخش کی نزر کرتا ہوں
عقل شعور و فہم و فراست کا نام بنے علم وادب اور فکر دفن کا امام ہے
Muslim
مسلمان جب جزیرہ نمائے عرب سے باہر نکلے تو انہوں نے تحقیق وندقیق پر توجہ دی مسلمانوں کی مشرقی روح باطنی وجود میں پھیلی گئی اور دوسری اقوام سے مکالمہ آرائی کرتے ہوئے مشرقی تاریخ کو ایک نیا رح دیا پنجابی شاعری کے بعض معاملات بڑے نازک ہوتے ہیں بعص اوقات یہ کیہ کرداعن بچایا جاتا ہے کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریق خانقاہی 4 رحمن بابا شاہ عبدالطیف بھٹائی اور سچل سر ست کے جائے بودوباش لباس زبان زنگ اور نسل کے فرق مکانی فاصلوں حمل کے زرائع قلیل و محدود ہونے کے با وصف خیال سوچاور عمل میں وحدت تھی یہ سب شعراہ ایک چشمے سے سیراب ہوئے اگر ان کے کلام سے پشتو پنجابی اور بلوچی زبانوں کا لباس دور کردیا جائے تو ان کی پہچان مشکل ہوگی عبدالرحمان بابا یوں گویا ہوتے ہین رحمان بابا کے تین اشعار کا اردو ترجمہ پیش خدمت تھے
کیا مری زندگی کیا ہے سر جبکہ دل سے ہوں طالب دلبر زندگی جب تلک ہے عالم میں چھٹ سکے گا کبھی نہ مجھے سے یہ در
یہ اسی کی طلب کا ثمرہ ہے خشک رہتے ہیں لب تو چشم ہے تر
شاہ عبدالطیف بھٹائی کے چند سندھی اشعار کا ترجمہ
کان میں بانگ الست کی پڑی جس دم صدا قلب نے صدیق وصفا سے کہ دیا قالو بلی اور بلھے شاہ کہتے ہیں
قالو بلی ہمایوں کر بولے
لاالہ الا اللہ (بلھے شاہ)
پاکستانی پنجابی شعرا نغمات شریں کے ذریعے اہل وطن اور پوری انسانیت کو محبت اور صلح جوئی اور انسانی ہمدردی کا بیغام مختلف زبانوں میں دیتے رہے اور اپنے افکار کے موتی بکھرتے رہے
آخر میں منظوم بنجابی اشعار پیش خدمت ہیں
عشقے دار وگ لگا بیٹھی اوہ ہستی نئیں سی ہیرسی اوہ
میں جنڈری یا ر لٹا بیٹھی جڑی ڈولی دے وچ جا بیٹھی
شاہ بھٹائی تے رحمان بابا دے اے ربا کیوں مخلوق تری
سب شعری پیٹرن میں گا بیٹھی بلے بن کے اج خدا بیٹھی
تو میاں محمد دیا گلاں کر اوہ وارث بھلے دی خشبو
میں اپنا حال سنا بیٹھی اج اختر کتھے جا بیٹھی
اوہ ڈھول بلو چا مٹر یا نیئں
میں راگ و چھوڑے گا بیٹھی
اور آخر میں سچل سر مست کا ایک شعر نذر قائم ہے
دم عشق من نے مارا اس کے گلے میں رشتہ سر جان میں پہ صدقہ ، سچو سریر سارا