تحریر : ایم پی خان سال 2005میں بالاکوٹ اور خیبرپختونخواہ کے دیگرعلاقوں میں قیامت خیز زلزلے کے بعددل و دماغ پر افسردگی کے ایسے بادل چھائے ہوئے تھے کہ ہرپل زندگی کی بے ثباتی کاتصوراوردنیاکے فناہونے کی سوچ دامن گیررہتی تھی ، ایسے میں ایک دن مولاناطارق جمیل صاحب کی زبانی کچھ ایسے دل آویز اوردلنواز اشعارسنے ،جوبے حدپسند آئے۔لہذا دلچسپی اورذوق شوق کے ساتھ اتنی دفعہ سنے کہ ازبرہوگئے اورپھرجب کبھی میرے تصورمیں بالاکوٹ زلزلے کے مناظر آتے تھے توبے اختیارمیری زبان پر یہ اشعارآتے تھے۔
تجھے پہلے بچپن میں برسوں کھلایا جوانی نے پھرتجھ کو مجنوں بنایا بڑھاپے نے پھرآکے کیاکیاستایا اجل تیراکردے گی بالکل صفایا جگہ جی لگانے کی دنیانہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشانہیں ہے
چونکہ میں ادب کاطالب علم تھااوراشعارسننے اورزبانی یادکرنے کے ساتھ ساتھ اسکے ماخذمعلوم کرنے کی جستجوہمیشہ رہتی تھی ۔لہذا میں نے پہلے شاعرکاکھوج لگایاتوپتہ چلاکہ یہ ”خواجہ عزیزالحسن مجذوب صاحب” کے اشعارہیں، جومولانااشرف علی تھانوی صاحب کے مریدخاص اورخلیفہ گزرہے ہیں ۔ لہذا بہ نسبت حکیم الامت مولانااشرف علی تھانوی صاحب اشعار میں دلچسپی کے ساتھ ساتھ مجھے شخصیت سے بھی عقیدت ہونے لگی۔ پھرمیں نے ان کی زندگی کامطالعہ شروع کیا۔جتنے اشعار انکی نسبت سے میرے حاشیہ خیال تک پہنچتے ، تووہ یاداشت کے بیاض پر ایسے بکھرتے کہ پھرکبھی محونہ ہوئے۔ کوئی مزا،مزانہیں کوئی خوشی خوشی نہیں تیرے بغیر زندگی، موت ہے زندگی نہیں میکشو، یہ تومیکشی ، رندی ہے میکشی نہیں آنکھوں سے تم نے پی نہیں ،آنکھوں کی تم نے پی نہیں
Ashraf us Swaneh
خواجہ عزیزالحسن غوری، جن کاتخلص مجذوب تھا، اورئی ، ہندوستان میں 1881میں پیداہوئے ۔ انکی شخصیت میں مقناطیسی جاذبیت اورکشش تھی ۔ خوبصورت لمبے قد، سفید داڑھی اورشگفتہ مزاج آدمی تھے۔مجذوب صاحب ایک زمانے میں ڈپٹی کلکٹررہے ، پھرمستعفی ہوکر محکمہ تعلیم (یوپی) میں اسسٹنٹ انسپکٹررہے اورپھرانسپکٹرآف سکولز کے عہدے پرپہنچ کر سبکدوش ہوگئے۔وہ سخت قسم کے متشرع بھی تھے اورصوفی شاعربھی تھے۔ایک دفعہ خانقاہ تھانہ بھون میں کچھ بے اصولی کی بناء پر مولانااشرف علی تھانوی صاحب کے عتاب کانشانہ بنے اورخانقاہ سے نکال دئے گئے۔ بس ہوناکیاتھا، باہرجاکر فٹ پاتھ پر لیٹ گئے ۔ ایک شخص نے کہاکہ حضرت نے آپکونکال دیاہے تویہاں کیوں ٹہرے ہو۔کہنے لگے کہ وہ حضرت کی خانقا ہے اوریہ سرکارکی زمین۔میں خانقاہ میں نہ ٹہراتوفٹ پاتھ ہی ٹھیک ہے اوریہ اشعارزبان سے نکلے۔
اُدھروہ درنہ کھولیں گے اِدھر میں درنہ چھوڑوں گا حکومت اپنی اپنی ہے کہیں ان کی کہیں میری مولانااشرف علی تھانوی صاحب کو جب پتہ چلاتوخانقاہ لے آئے، کیونکہ انکوپتہ چلاکہ مجذوب صاحب کے اندرسچی طلب ہے اورپھریوں ہواکہ اپناخلیفہ بناکر رخصت کیا۔خانقاہ سے رخصت ہوتے وقت یہ اشعارانکی زبان پرتھے۔ نقش بتاں مٹایادکھایاجمال حق آنکھوں کو آنکھ دل کو میرے دل بنادیا آہن کو سوزدل سے کیانرم آپ نے ناآشنائے دردکو بسمل بنادیا
Khanka Ashrafia
بعض محققین کہتے ہیں کہ خواجہ صاحب شروع میں” حسن” تخلص فرمایاکرتے تھے جبکہ بعدمیں مولانااشرف علی تھانوی صاحب نے انہیں ”مجذوب” کاتخلص عطاکیا۔خواجہ عزیزالحسن مجذوب کی برکت سے اردوکے مایہ نازشاعر جگرمرادآبادی کی زندگی بدل گئی تھی۔جگر مجذوب صاحب سے پہلی ملاقات میں حضرت سے ملنے کی خواہش کااظہارکیا، چونکہ جگرمرادآبادی کی بلانوشی کی وجہ سے مجذوب صاحب نے اپنے مرشدسے ملوانے کی جرات نہ کی۔ جب مجذوب صاحب نے حضرت سے ذکرکیاتووہ بہت ناراض ہوئے اورفرمایا”تم نے انہیں آنے سے کیوں روکا، یہ درست ہے کہ میری ہاں سختی اورپابندی ہے لیکن جگراس سے مستثنیٰ ہے، کیاعجب ہے کہ یہاں آنے سے انکی اصلاح ہوجاتی۔
لہذا دوسری دفعہ مجذوب صاحب نے انہیں حضرت کی خدمت میں حاضرکیااوریوں جگرمرادآبادی کے دل کی دنیابدل گئی۔اسکے بعدشراب نوشی سے تائب ہوگئے اوربقیہ زندگی شریعت کے مطابق گزاردی۔ جگرمرادآبادی شاعری میں مجذوب صاحب کو اپنااستادتسلیم کرتے تھے۔ مجذوب صاحب نے اپن پیرومرشد حکیم الامت مولانااشرف علی تھانوی صاحب کی سوانح حیات تحریرفرمائی ، جوکہ تین جلدوں پر مشتمل ہے اوراسکے آخری حصے میں مجذوب صاحب نے اپنے حالات بھی قلمبند کئے ہیں ۔ اس دورکے جلیل القدرعلماء اورشعرانے مجذوب صاحب کو ”حافظ عصر” کاخطاب عطاکیاہے۔خواجہ صاحب بہت بلند مرتبے کے شاعرتھے اوربڑے بڑے شعرائ، سخن شناس اوراہل ذوق آپکے معتقدتھے۔ جوایک دفعہ مجذوب صاحب کاکلام سن لیتا، آپکادیوانہ ہوجاتا۔خوداپنے بارے میں یوں رقمطرازہیں۔
یہ معانی ، یہ حقائق ، یہ روانی ، یہ اثر شاعری تیری ہے یامجذوب یاالہام ہے؟ پروانہ ہے بلبل کاسااندازنہیں ہے جان بازہے مجذوب سخن سازنہیں ہے
Khanka Ashrafia
مجذوب کے ابتدائی ایام کی شاعری میں حسن پرستی اورشوخی کے اثرات بھی پائے جاتے ہیں ۔ ذیل کے اشعارانکی چلبلی طبیعت کی غمازی کرتے ہیں۔ جانے توتمہیں دیں گے نہ اب تابہ سحرہم شب ہائے جدائی کے نکالیں گے کسر ہم پیری میں حسینوں سے لڑائے تونظرکیا؟ دزدیدہ مگرڈال ہی لیتے ہیں نظرہم
اس قسم کی شوخی مجذوب صاحب کے رگ وپے میں رچی ہوئی تھی ، جسکی لگام مجذوب خودبھی کسے رہتے تھے اورجب شدت حد سے بڑھنے لگتی تواپنے پیرومرشدمولانااشرف علی تھانوی صاحب کو اس کیفیت کی اطلاع کرتے تھے۔ وہاں سے مناسب ہدایت آجاتی تھی ،جس پر مجذوب صاحب عمل پیراہوتے ۔ وہ زمانہ مجذوب صاحب کے لئے سخت مصیبت اورکشاکش کاہوتاتھاکیونکہ اس میں شعرخوانی کی ممانعت کردی جاتی تھی۔دوسروں کے لئے بھی یہ ممانعت بہت مصیبت ہوتی تھی کیونکہ لوگ طرح طرح سے اصرارکرتے اورمجذوب کہاکرتے تھے ۔”آپ لوگوں کوکیاعلم ہے۔ یہاں سینے پر چھریاں چل رہی ہیں”۔ایک دفعہ یہی توبے کازمانہ تھا۔ سب لوگ سنانے کاتقاضاکررہے تھے کہ مفتی عبدالقادرصاحب نے موقعہ کاشعرپڑھ دیا۔
بات ساقی کی نہ ٹالی جائے گی کرکے توبہ توڑڈالی جائے گی کہناکیاتھاکہ مجذوب صاحب بے قابوہوگئے، توبہ ٹوٹنے کوتھاکہ ضبط کرنے لگے اوراٹھ کرچل دئے۔ شام کوجوآئے توجھومتے اوررقص کرتے ہوئے ، اسی طرز پر نئی غزل سنانے لگے ، جس کے کچھ اشعاریہ ہیں۔ زاہدوں پر مے اچھالی جائے گی جان ان مردوں میں ڈالی جائے گی شیخ پینے کااردوہ توکرے خوض کوثرسے منگالی جائے گی اورتونکلے ہی گے خرقے سے کام اس میں بوتل بھی چھپالی جائے گی
Majzoob
اس قسم کے اشعارکے لئے مجذوب صاحب کسی قسم کی ریاضت اورمشق نہیں کرتے تھے بلکہ ایک ابال کی طرح انکے جذبات ابلتے اورموزوں قالب اختیارکرتے چلے جاتے تھے۔کبھی کبھی جذبات کادھاراتناتیز ہوتاکہ ایک زمین میں ڈھیرسو، دوسواشعارتک کہتے تھے اوربلاانتخاب سناتے چلے جاتے تھے ۔مجذوب صاحب کے ایک مشہورزمانہ شعر،جسے سن کر انکے مرشدتھانوی صاحب نے کہاتھا کہ میرے پاس ایک لاکھ روپے ہوتے تواس شعرکے بدلے مجذوب کودے دیتا۔ ہرتمنادل سے رخصت ہوگئی اب توآجااب توخلوت ہوگئی
اس شعرکے بارے میں حضرت فرماتے تھے کہ مجھے جب یہ شعریادآتاہے تومیں توکم ازکم میں اسے تین دفعہ ضروردہراتاہوں۔اس شعرکووہی سمجھ سکتاہے ، جس نے اپناسب کچھ اللہ کے لئے قربان کردیاہو۔ حضرت کی نظرمیں مجذوب صاحب کاکلام حال ہی حال ہے ، قال کانام ونشان نہیں ،کیونکہ قال میں یہ اثرہوناناممکن ہے۔
اردوادب اورتصوف کی دنیاکے اس عظیم شاعرکو وہ مقبولیت اورپذیرائی نہ ملی ، جسکے وہ صحیح معنوں میں حقدارہے اوراد ب کے اکثراساتذہ اورطلبہ خواجہ عزیزالحسن مجذوب کے نام سے بہت کم واقف ہیں۔ لہذا ضرورت اس امرکی ہے کہ مجذوب کے کلام کا تحقیق اورتنقید کی روشنی میں مطالعہ کیاجائے اورنئی نسل کو انکی شاعری ،تصوف اورنظریات سے واقف کردیا جائے۔