گھوڑے پہ چڑھ کے کوئی سکندر نہیں ہوا دو شعر لکھ کے کوئی سخنور نہیں ہوا اس عہدِ بے ضمیریِ حرف و قلم میں بھی لفظوں کا کاری گر تو قلندر نہیں ہوا قدآوری کا شوق تومجھ کو بھی تھا مگر اب تک تواپنے سائے سے بڑھ کر نہیں ہوا جالے ہیں یاکہ چھت سے لٹکی اداسیاں کمرے کابے سبب تویہ منظر نہیں ہوا اترے تھے اس کی آنکھ میں اک عکس دیکھنے اپنے سواکوئی عکس اجاگر نہیں ہوا جمہوریت کے دور میں جمہورکے لئے وعدوں کی سیپ میں کوئی گوہرنہیں ہوا سیکھا ہےاپنے آپ کواوقات میں رکھوں چادر سے پاوں اس لئے باہرنہیں