تحریر : کامران غنی صبا، پٹنہ کل ہولی کے موقع پر ‘لائیو سٹیز نیوز” کی طرف کچھ نوجوان شعرا کو اسٹوڈیو مشاعرہ کے لیے بلایا گیا تھا۔ میں بھی مدعو تھا۔ چینل والوں نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ پروگرام’ہولی’ کے موقعے سے ہے اس لیے کلام بھی اسی مناسبت سے پڑھنا ہے۔ وقت مقررہ پر میں ‘لائیو سٹیز نیوز’ کے دفتر پہنچ چکا تھا۔چونکہ پروگرام ہولی کی مناسبت سے تھا اس لیے ہولی جیسا ماحول بنانے کے لیے شرکا سے رنگ اور ٹیکہ لگانے کی گزارش کی گئی۔ میں نے رنگ کے لیے تو حامی بھر لی البتہ ٹیکہ لگانے سے صاف انکار کر دیا۔ پروگرام بہت ہی اچھا رہا۔ میں نے موجودہ ملکی سیاسی منظر نامے پر ایک چھبتی ہوئی نظم بھی پڑھی۔ جسے پسند کیا گیا۔ پروگرام اور پروگرام کے بعد کی چند تصاویر میں نے فیس بک پر پوسٹ کی، بس کیا تھا ‘اہلِ ایمان’ کی رگیں پھڑک اٹھیں۔ کمنٹ اور ان باکس میں نصیحت آمیز کلمات موصول ہونے لگے۔ یقینا نصیحت کرنے والوں کی نیت نیک ہی ہوگی لیکن پتہ نہیں ہماری ایمانی رگیں خاص خاص مواقع پر ہی کیوں پھڑکتی ہیں؟ ؟ کیا اسلامی تعلیمات چند مخصوص مواقع کے لیے ہی ہیں؟
میں نہ کوئی عالم ہوں اور نہ داعی۔ البتہ یہ کوشش ضرور ہوتی ہے کہ اپنے محدود علم کے دائرے میں برادران وطن کے درمیان اسلام کے سچے اور آفاقی پیغام کو پہنچائوں۔ کل شام پروگرام کے دوران مغرب کا وقت ہو چکا تھا۔ مشاعرہ چونکہ براہ راست چل رہا تھا اس لیے بیچ سے اٹھنا ممکن نہیں تھا۔ مشاعرہ ختم ہوتے ہی میں نے اپنے دوست ‘دیبانشوپربھات’ سے کہا کہ مجھے پانچ منٹ کے لیے کوئی ایسی جگہ پہنچا دیں جہاں میں نماز پڑھ سکوں۔ دیبانشو نے فوراً ہی کسی سینئر اسٹاف کے چیمبر میں نماز کا انتظام کر دیا۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ برادران وطن ایسے مواقع پر بہت ہی فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہیں (چند ایک کو چھوڑ کر)۔ میرا خیال ہے کہ فرض نماز علیٰ الاعلان پڑھی جانی چاہیے تاکہ دیکھنے والوں میں بھی فرض شناسی کا جذبہ پیدا ہو لیکن افسوس کہ نماز کے معاملہ میں ہمارے یہاں اتنی غفلت ہے کہ بسا اوقات باشرح افراد بھی جلسہ جلوس میں نماز کو فراموش کر بیٹھتے ہیں اور مزید حیرت اِس بات پر کہ اُس وقت ہماری ‘ایمانی رگ’ بھی نہیں پھڑکتی حالانکہ بعض احادیث میں تو جان بوجھ کر نماز چھوڑنے کو ‘کفر’ تک کہا گیا ہے۔ خیر۔۔۔ اس طرح کے مواقع پر اگر ہم چاہیں تو اسلام کے فطری اور سچے پیغام کو مؤثر انداز میں پیش کر سکتے ہیں لیکن ہم نے تو غیر مسلموں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کو بھی ‘پاپ’ سمجھ رکھا ہے۔ افسوس کہ میں عالم دین یا داعی نہیں ہوں لیکن اپنے طور پر اپنی بات رکھنے سے نہیں چوکتا۔ ایسے موقعوں پر کہ جب مجھے اکیلے نمازادا کر کے ‘نمونہ’ بننا پڑتا ہے ، یا جب کبھی نماز کے تعلق سے سوالات پوچھے جاتے ہیں تو میں ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں اپنی بات رکھنے کی کوشش کرتا ہوں:
”شاعر اور کوی تو محبت کا پیامبر ہوتا ہے ، اور نماز محبت کی علامت اور محبت کا ایگریمنٹ ہے۔ہم اپنے رب کے سامنے دن میں پانچ پر اپنی اعلانیہ محبت کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں نماز وفاداری کا بھی اگریمنٹ ہے۔ ہم نے جب اپنے رب کی اطاعت قبول کر لی تو ہمیں زندگی بھر اس کا وفادار بن کر رہنا ہے۔ اب اگر ایک شخص اپنے رب ، اپنے ایشور کا ہی وفادار نہ ہو تو آپ اس سے وفاداری کی کیا امید رکھ سکتے ہیں؟نماز ہمیں محبت، ایمانداری،وفاداری اور وقت کی پابندی سکھاتی ہے۔ ایک سچا نمازی کبھی بھی نفرت کرنے والا، بے ایمان، غدار اور دھوکے باز نہیں ہو سکتا۔”
سرکاری ملازمت میں ہونے کی وجہ سے اکثر غیر مسلموں کے درمیان نماز پڑھنے کا موقع ملتا ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ برادرانِ وطن نماز سے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ بہرکیف! مجھے اِس بات کا بالکل بھی افسوس نہیں ہے کہ رنگ لگواکر فوٹو کھینچوانے پر میری تنقید کی گئی۔ افسوس بس اس بات کا ہے کہ ہم نے اپنے دین کو ایک ‘معمہ’ بنا دیا ہے۔ معاشرہ میں جھوٹ، غیبت،فتنہ و فساد، آپسی رنجش جیسی بے شمار برائیاں عام ہیں۔ ان پر ہمارے لب نہیں کھلتے یا کھلتے بھی ہیں تو اُس میں وہ شدت نہیں ہوتی۔ کون ایسا گھر ہے جہاں دو چار لوگ تارک الصلاة نہیں ہیں؟ کیا جان بوجھ کر نماز چھوڑ دینا کوئی معمولی گناہ ہے؟؟ جھوٹ کی وبا عام ہے حالانکہ اللہ کے رسول ۖ کا واضح فرمان ہے کہ ایک مسلمان بزدل ہو سکتا ہے جھوٹا نہیں۔
کیا جھوٹ کے خلاف ہمارا لہجہ ایسا ہی جارحانہ ہوتا ہے جیسا فروعی معاملات میں۔۔۔؟ پڑوسیوں کے حقوق پڑھیے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایک موقع پر رسول اکرمۖ نے فرمایا کہ جبرئیل امین نے مجھے پڑوسی کے حقوق کی اتنی تاکید کی کہ مجھے خدشہ ہو گیا کہ پڑوسیوں کو بھی وراثت میں حقدار قرار دے دیا جائے۔ آج ذرا ہم اپنا جائزہ لیں کہ ہم اپنے پڑوسیوں کو کتنا متاثر کر رہے ہیں۔۔۔؟کتنے غیر مسلم اپنے مسلمان پڑوسی کے افعال و کردار سے متاثر ہو رہے ہیں۔۔۔؟کتنے غیر مسلم ملازمین اپنے ہم پیشہ مسلم ملازمین کے اقوال و کردار کی گواہی دے رہے ہیں۔۔۔؟
چلیے میں اقرار کرتا ہوں کہ میں نے ہولی میں رنگ لگاکر گناہ کیا۔ اللہ مجھے معاف کرے۔ مجھے اپنی بے عملی اور کم علمی کا بھی اعتراف ہے ۔ لیکن سچے دل سے سوچئے کہ کیا ہماری توانائی صرف ایک رُخ پر خرچ نہیں ہو رہی ہے؟کیا ہم عملی طور پر اسلام کی سچی تعلیمات برادران وطن تک پہنچا رہے ہیں۔۔۔۔؟؟