تحریر: احتشام جمیل شامی جالب کا پیدائشی نام حبیب احمد تھا۔ والد کا اسم گرامی عنایت اللہ اور والدہ کا رابعہ بصری تھا۔ انکی پیدائش 26 فروری 1929 کو میانی افغاناں ، ضلع ہوشیار پور میں ہوئی۔ ابتد ائی تعلیم اینگلو عربک اسکول دہلی میں نویں تک حاصل کی۔ تعلیم ادھوری رہی۔ ابتدائی عمر میں ہی انہوں نے معاشی ضرورتوں کی خاطر ملازمت سے وابستگی اختیار کر لی۔ کئی روز ناموں میں کام کیا کچھ دنوں تک فلموں سے بھی وابستہ رہے وہاں نغمے لکھے اور فلم سازی میں بھی حصہ لیا۔اس لئے حبیب جالب کا انداز دوسرے شعرا ء سے جدا ہے وہ مو سیقی سے بھی بخوبی واقفیت رکھتے تھے جسکے اثرات کا انداز انکی شاعری کی نغمگی سے لگایا جا سکتا ہے۔ حبیب جالب نے 1956ء میں لاہور میں رہائش اختیار کی۔ اس دوران انہوں نے ایوب خان اور یحیٰی خان کے دور آمریت میں متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں اور وہ بنیادی طور پر کمیو نزم کے حامی تھے۔ انہیں مشہور پاکستانی فلم زرقا میں ‘رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے’ لکھنے پر شہرت حاصل ہوئی۔پہلا مجموعہ کلام برگ آوارہ کے نام سے 1957 میں شائع کیا،مختلف شہروں سے ہجرت کرتے ہوئے بلا آخر لاہور میں مستقل آباد ہوگئے اور ان کا
یہ شعر ہمیشہ کے لئے امر ہوگیا۔ یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے
حبیب جالب متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور ایک عام آدمی کے اندز میں سو چتے تھے۔ وہ پاکستان کے محنت کش طبقے کی زندگی میں تبدیلی کے آرزو مند رہے ،اور یہی وجہ رہی کہ وہ سماج کے ہر اْس پہلو سے لڑے جس میں آمریت کا رنگ جھلکتا تھا۔ وہ اپنی انقلابی سوچ کے تحت آخر دم تک سماج کے محکوم عوام کو اعلی طبقات کے استحصال سے نجات دلانے کا کام کرتے رہے۔حبیب جالب کی پیدائش اور پرورش محرومی کے حالات میں ہوئی۔ ان کا تعلق اس بچھڑے طبقے سے تھا جو نسلوں سے کسی نہ کسی طرح سماجی جبر کا شکار ہیں۔ انہوں نے آرام و آسائش کو اپنے مشن کے بدلے قبول نہیں کیا ان کا کہنا تھا کہ ” میں عوام میں سے ہوں ایک پیدائشی مزدور۔ اور پسماندہ لوگوں کے جذبات کا صحیح ترجمان۔” حبیب جالب ہمیشہ مظلوم غریب اور نچلے طبقات کے ساتھ وابستہ رہے اور انکے حقوق کی بات کہتے رہے۔
Democracy
وہ کبھی کسی ایوارڈ یا اعزاز کے خواہش مند نہیں رہے بلکہ انکا کہنا تھا کہ ادیب و شعراء ایسے لوگوں سے ایوارڈ ہر گز نہ لیں جو حقوق انسانی پورے نہیں کر تے اور انسانیت پر ظلم کرتے ہیں۔ وہ بڑے جذباتی ، حساس اور عظیم انسان تھے عوام کے دکھ دیکھ کر تڑپ اٹھتے تھے۔ عوام کے دکھوں کو الفاظ کا جامہ پہنا کر پیش کرنا اس کا شعار تھے۔ تقسیم کے بعد جب جمہوریت بحال ہوئی تو اس کے چہر ے پر شدید رد عمل کے آثا ر نمایاں تھے۔ وہ جمہوریت کے خاتمہ اور بنیاد ی حقوق کی معطلی پر بہت زیادہ مضطرب تھے۔وقت کے آمروں کو للکارنے والی ایک توانا آواز اور شاعر عوام حبیب جالب کو گزرے آج بیس برس بیت گئے لیکن ان کی انقلابی شاعری آج بھی تازہ ومعطر ہے۔ حبیب جالب کا زندگی بھریہ المیہ رہا کہ وہ تاریکی کو روشنی اور باطل کو حق نہ کہہ سکے۔
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا پتھر کو گْہر ، دیوار کو دَر ، کرگس کو ہْما کیا لکھنا
حبیب جالب نے جو دیکھا اورجو محسوس کیا، نتائج کی پرواہ کیے بغیر اس کومن و عن اشعار میں ڈھال دیا۔ انہوں نے ہر دور کے جابر اور آمر حکمران کے سامنے کلمہ حق بیان کیا۔ حبیب جالب کے بے باک قلم نے ظلم، زیادتی، بے انصافی اور عدم مساوات کے حوالے سے جو لکھا وہ زبان زدِ عام ہو گیا۔
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے ایسے دستور کو، صبح بے نور کو میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
اگر جالب چاہتے تو اپنی زندگی میں وہ بھی کروڑ بتی بن سکتے تھے جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان اور جنرل ضیاالحق کے 25 سالہ دورِ اقتدار میں انہیں ہر طرح کے لائسنس پرمٹ اور مال و دولت کے ڈھیرمل سکتے تھے یوں تو نواب آف کالا باغ بھی کہا کرتے تھے کہ ہر شخص کی ایک قیمت ہوتی ہے مگر وہ بھی اپنی لاکھ کوششو ں کے باوجود ایک غریب ،مفلس شاعر اور سیاسی کارکن حبیب جالب کو خرید نہیں سکے تھے کئی دفعہ جیلوں کی اذیت ناک سزاؤں کے علاوہ اس کے کلام کی شائع ہونے والی کتابوں پر بھی پابندی لگا دی جاتی تھی ان کے گھر میں اکثر فاقہ کشی کی حالت رہتی تھی اور کئی دفعہ تو وہ اپنے بچوں کے علاج معالجے کیلئے بھی ترستے رہتے تھے مگراس کی غیرت نے کبھی گوارا نہیں کیا کہ وہ کسی ملٹری ڈکٹیٹر یا آمرِ مطلق کے سامنے ہاتھ پھیلائے ایک دفعہ تو انہوں نے خود ہی کہا تھا کہ
فرنگی کا جو میں دربان ہو تا تو جینا کس قدر آسان ہوتا میرے بچے بھی امریکہ میں پڑھتے میں ہر گرمی میں انگلستان ہوتا
Sheikh Zayed Hospital
آخری دنوں میں لاہور کے شیخ زید ہسپتال میں زیر علاج رہے،عمر بھر پاکستان کے عوام کے آنسو پونچھنے والے، ان کے دکھ درد کو اپنی آسان زبان میں بیان کرنے والے اور ان کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دینے والے کسی بھی حکومت کے سامنے نہ دبنے والے حبیب جالب بآلاخر بیماریوں سے بے بس ہو گئے جس کا اظہارحبیب جالب نے ان الفاظ سے کیا:
بہت تذلیل تو کر لی ہماری زندگانی کی اجازت موت کی اب ، ہم کو بن کے رحم دل دے دو
جالب نے اپنی موت کا نتیجہ بھی خود ہی لکھ دیا تھا
اب رہیں چین سے بے درد زمانے والے سو گئے خواب سے لوگوں کو جگانے والے
آخر کار 13 مارچ 1993 کومیرے حبیب جالب اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے یہ بھی عجیب حسن اتفاق ہے کہ ان کی پیدائش بھی 1928 میں مارچ ہی کے مہینے کی 28 تاریخ کو ہوئی تھی۔
تیرے لئے میں کیا کیا صدمے سہتا ہوں سنگینوں کے راج میں بھی سچ کہتا ہوں میری راہ میں مصلحتوں کے پھول بھی ہیں تیری خاطر کانٹے چنتا رہتا ہوں تو آئے گا اسی آس پر جھوم رہا ہے دل
دیکھ! اے مستقبل
اک اک کر کے سارے ساتھی چھوڑ گئے مجھ سے میرے رہبر بھی منہ موڑ گئے سوچتا ہوں بے کار گلا ہے غیروں کا اپنے ہی جب پیار کا ناتا توڑ گئے تیرے بھی دشمن ہیں میرے خوابوں کے قاتل
دیکھ! اے مستقبل
جہل کے آگے سر نہ جھکایا میں نے کبھی سِفلوں کو اپنا نہ بنایا میں نے کبھی دولت اور عہدوں کے بل جو اینٹھیں ان لوگوں کو منہ نہ لگایا میں نے کبھی میں نے چور کہا چوروں کو کھل کے سر محفل
دیکھ! اے مستقبل
AHTISHAM SHAMI
تحریر : احتشام جمیل شامی مرکزی صدر: پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ