عالمی عدالتی انصاف نے روہنگیائی مسلمانوں کے خلاف نسل کشی کی روک تھام کے لئے میانمار حکومت کو ضروری اقدامات کرنے کے احکامات دیئے، میانمار حکومت کی جانب سے روہنگیائی مسلمانوں کے خلاف نسل کشی کے سبب لاکھوں مہاجرین نے بنگلہ دیش میں پناہ حاصل کی، بنگلہ دیش کی حکومت نے روہنگیائی مسلمانوں کو پناہ دینے سے روکنے کی بڑی کوشش کی لیکن جس طرح میانمار میں روہنگیائی مسلمانوں کے خلاف ظلم وستم کا بازار گرم کرکے بستیوں کو جلایا اور مسلم آبادیوں کو مسمار کیا جارہا تھا، اس کے بعد روہنگیائی مسلمانوں کو اپنی نسل کو بچانے کے لئے وسیع پیمانے پر ہجرت کرنے پر مجبور کردیا۔ بنگلہ دیش نے لاکھوں روہنگیائی مسلمانوں کو انتہائی محدود جگہ پر تکلیف دہ صورتحال میں پناہ دینے پر مجبوراََحامی بھرلی تاہم اقوام متحدہ سے مطالبہ بھی کیا کہ وہ ان مہاجرین کو واپس اپنے ملک میانمار بھیجنے کے اقدامات کریں کیونکہ بنگلہ دیش اتنی بڑی تعداد کی کفالت کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔مغربی افریقہ کے ملک گیمبیا نے اس حوالے سے گذشتہ برس نومبر میں اقوام متحدہ کی اعلی عدالت سے رجوع کیا تھا، جہاں مختلف ممالک کے درمیان تنازعات کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اس مقدمے کی سماعت ابھی مکمل نہیں ہوئی ہے اور فی الحال گیمبیا کی جانب سے صرف ہنگامی ابتدائی اقدامات اٹھانے کی استدعا کی گئی ہے۔اس کیس کا مکمل فیصلہ آنے میں برسوں بھی لگ سکتے ہیں۔خدشات ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ روہنگیائی مسلمانوں کی نسل کشی کے بھیانک واقعات مزید رونما ہوسکتے ہیں۔ اس لئے عالمی عدالت انصاف نے ابتدائی طور پر اپنے دائرہ اختیار کے مطابق پُر تشدد مسلم نسل کشی کے واقعات روکنے کی ہدایات دیں، چونکہ عالمی عدالتی انصاف اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کے عملی اقدامات نہیں اٹھا سکتی، تاہم اس مقدمے سے روہنگیائی مسلم نسل کو ایک بار عالمی برادری کے سامنے اٹھایا گیا ہے کہ میانمار اپنی مملکت میں ایسے اقدامات سے گریز کرے، جس میں دنیا کی مظلوم ترین اقلیت کے خلاف بھیانک جرم و سفاکیت کی روک تھام ہوسکے۔
اقوام متحدہ کے تفتیش کار وں کا ماننا ہے کہ میانمار میں باقاعدہ فوجی منصوبے کے لئے ایک ایسی مہم کا آغاز کیا گیا، جس کا مقصد نسل کشی تھا، میانمار حکومت نے ایک پینل نے بھی اعتراف کیا کہ ’فوج نے شائد جرائم کا ارتکاب کیا ہو، لیکن میانمار حکومت مسلسل اس بات سے انکاری ہے کہ فوج نے مسلم نسل کشی کے کسی منصوبے کا ارتکاب نہیں کیا ہے، تاہم یہاں ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ تحقیقات و فوجی احتساب کریں گے اور فوجی احتساب و قوانین کے درمیان ذمہ داران کا تعین کرکے کاروائی کی جائے گی۔ یہاں بھی ان کا یہ بیان مبہم رہا کیونکہ میانمار حکومت کسی ٹھوس شواہد کی موجودگی سے انکار کرتے ہوئے، تمام تر کاروائیوں کو ردعمل کا نتیجہ قرار دہتی ہے۔ میانمار میں روہنگیائی مسلمانوں کو شناخت و شہریت کے نام پر ملک سے بیدخل کرنے اور انسانی حقوق کی خلاف وزریوں کا بدترین سامنا رہا ہے، ہجرت کے نتیجے میں جس طرح انسانی اسمگلنگ میں مسلمانوں کی قتل وغارت و لوٹ مار کا بازار گرم کیا گیا وہ تاریخ کا سیاہ ترین باب بن چکا ہے، بنگلہ دیش میں بھوک و افلاس کے ساتھ اپنی عزت و ناموس کی حفاظت کرنا روہنگیائی مسلمانوں کے لئے دشوار گذار ہوتا جارہا ہے، عصمتوں کی مذموم فروخت و مجبوریوں کا فایدہ اٹھا کر عزتیں پامال کی جا رہی ہیں۔
یہاں یہ اَمر قابل ذکر ہے کہ عالمی عدالت انصاف میں روہنگیائی مسلم کشی کے خلاف گمبیا کے وزیر قانون ابوبکر تمباڈو آگے بڑھے اور ان کی کوششوں کی بدولت میانمار کی رہنما اور نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کو ہیگ میں واقع عالمی عدالت انصاف میں پیش ہو کر یہ تردید کرنی پڑی تھی کہ ان کی حکومت ملک کی روہنگیا اقلیت کے قتل عام میں ملوث نہیں تھی۔تمباڈو روانڈا پر بنائے جانے والے اقوام متحدہ کے ٹرائیبیونل کے سابقہ پراسیکیوٹر ہیں۔ روانڈا کی نسل کشی میں آٹھ لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ تمباڈو 1972 میں گیمبیا کے دارالحکومت بنجول میں پیدا ہوئے تھے۔ابوبکر مغربی افریقہ کے چھوٹے سے ملک گیمبیا سے نکل کر بنگلہ دیش کے ساحلی شہر کاکس بازار میں قائم پناہ گزین کیمپ پہنچے جہاں ان پر بہت سے راز افشا ہوئے۔بچ جانے والے روہنگیا افراد کی کہانیاں سن کر ان کے مطابق انھیں ایسا محسوس ہوا جیسے انسانی لاشوں کا تعفن میانمار کی سرحد پار کر کے بنگلہ دیش میں داخل ہو رہا ہے۔انھوں نے برطانوی نشریاتی ادارے کو اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’میں نے محسوس کیا کہ یہ سب اس سے کہیں زیادہ تشویشناک ہے جتنا ہم ٹی وی کی سکرینوں پر دیکھ رہے تھے۔‘’فوج اور عام افراد روہنگین افراد کے خلاف منصوبہ بندی کے تحت حملے کر رہے تھے، ان کے مکانات کو نذرِ آتش کرتے، ماؤں کی گودوں سے ان کے بچے چھین کر بھڑکتی ہوئی آگ میں پھینک دیتے، مردوں کو اکٹھا کر قتل کرتے، عورتوں کا گینگ ریپ کرنے کے علاوہ ہر طرح کی جنسی زیادتیوں کا شکار بناتے۔روہنگیا کی حالت زار نے تمباڈو کے ذہن میں روانڈا میں سنہ 1994 میں ہونے والی نسل کشی کی یاد تازہ کر دی جس میں آٹھ لاکھ افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا۔’یہ حالات سننے میں بالکل ویسے لگتے ہیں جیسے روانڈا میں ٹوٹسی قبیلے کے افراد کو درپیش تھے۔‘’(میانمار میں بھی) طریقہ بالکل ویسا ہی تھا۔ غیر انسانی عمل، ان کو مختلف ناموں سے پکارنا، اس میں نسل کشی کی تمام بنیادی نشانیاں تھیں۔ میں نے یہ سوچا کہ یہ میانمار کے حکام کی جانب سے روہنگیا گروہ کو مکمل طور پر تباہ کرنے کی ایک کوشش تھی۔‘
اقوام متحدہ، مغرب ممالک سمیت مسلم اکثریتی ممالک نے روہنگیائی مسلمانوں کو بے آسرا و فرمواش کردیا ہے۔ گمبیا کے وزیر قانون ابوبکر تمباڈوکی کوششوں سے ایک مرتبہ عالمی سطح پر روہنگیائی مسلمانوں کی نسل کشی و حالت زار پر انسانی ضمیر کو زندہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن سب سے زیادہ افسوس ناک اَمر یہ ہے کہ مسلم اکثریتی ممالک، بالخصوص اسلامی تعاون تنظیم و اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی کوئی ایسے اقدامات نہیں اٹھائے جس سے مظلوم ترین اقلیت کی جان و مال کی حفاظت کو ممکن بنایا جاسکتا۔ بنگلہ دیشی حکومت مختلف حربوں سے روہنگیائی مسلمانوں کو واپس میانمار میں نسل کشی کے لئے بھیجا چاہتی ہے، لیکن پناہ گزین روہنگیائی مسلمانوں نے میانمار میں بے آسرا موت مرنے کے بجائے مہاجرین کے کیمپ میں جان دینے کو ترجیح دی ہے اور بنگلہ دیش حکومت سے اپیل کی ہے انہیں سفاک قاتلوں کے حوالے کرنے کے بجائے خود گولیاں مار کرکے قتل کردیں،
وہ میانمار ان حالات میں جا کر اپنء اہل خانہ کو زندہ جلتے و سفاکانہ انداز میں قتل ہوتے نہیں دیکھ سکتے۔ میانمار حکومت نے لاکھوں روہنگیائی مسلمانوں کی املاک کوقبضہ کرنے کے بعد مسمار بھی کرچکے ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ میں ان جگہوں پر سرکاری و فوجی عمارتوں کی تعمیر نے روہنگیائی مسلمانوں کی واپسی کی راہیں مسدود کردیں ہیں۔ اس وقت روہنگیائی مسلمانوں کے ساتھ انسانی تاریخ کا بدترین سلوک ہورہا ہے، ہزاروں بچوں کو صحت عامہ کی بنیادی سہولیات تک میسر نہیں، وبائی امراض و غذائی قلت کے سبب مہاجرین کو بے پناہ تکالیف و دشواریوں کا سامنا ہے۔ امدادی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
بنگلہ دیش خود بدترین سیاسی بحران و غربت کا شکار ہے، اس کے علاوہ تشویش ناک صورتحال یہ بھی درپیش ہے کہ آسام و مغربی بنگال بھارت میں بھی لاکھوں مسلمانوں کو شہریت کی آڑ میں بنگلہ دیش بھیجنے کے علاوہ مسلم نسل کشی کے شدید خطرات کا سامنا ہے، بنگلہ دیشی حکومت ان حالات میں انسانی بحران نپٹنے کے وسائل نہیں رکھتی، دنیا بھر سے امدادی سامان کی کمی و بے حسی نے روہنگیائی مسلمانوں کو بیچ سمندر مرنے کے لئے تنہا چھوڑ دیا ہے۔ روہنگیائی مسلمانوں کی بحالی و حفاظت و نسل کے بچاؤ کے لئے دنیا بھر میں خاموشی نے روہنگیائی مسلمانوں میں سخت بے چینی پیدا کی ہوئی ہے۔ ان حالات میں کم ازکم مسلم امہ کا فرض بنتا ہے کہ وہ آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کریں۔