حکومت پاکستان نے مقبوضہ کشمیر پر تمام کارڈ کھول دیئے ہیں؟۔یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہر خاص و عوام کے دل و دماغ میں ابھر رہا ہے۔ 5اگست کے بھارتی اقدام کے بعد وادی کشمیر، جموں، لداخ اور کارگل میں ایک ہیجانی کیفیت واقع ہوئی اور بھارت نے تمام کشمیریوں کو گھروں میں اسیرکردیا۔ 13ہزار سے زائد کشمیری نوجوانوں کو بھارت کی مختلف جیلوں میں قید کردیئے گئے۔ احتجاج کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو اَب کسی طور پر رُک نہیں سکتا۔ پاکستان نے ہنگامی طور پر مسئلہ کشمیر کو چین کی مدد سے اٹھا یا اور پوری دنیا میں مسئلہ کشمیر میں ہونے والی زیادتیوں و مظالم کا پردہ چاک کیا گیا۔ وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ میں پرجوش تقریر کی۔ عالمی ذرائع ابلاغ نے بھرپور ساتھ دیا اور پاکستان کی آواز دنیا کے کونے کونے میں پہنچائی۔ لیکن اب اس کے بعد کیا ہوگا اگر بھارت کشمیریوں کے بنیادی حقوق بحال نہیں کرتا۔ کیا مسئلہ صرف یہی رہ جائے گا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر سے کرفیو اٹھا دیا جائے تو پاکستان کا مطالبہ پورا ہوجائے گا۔ بھارتی سپریم کورٹ آرٹیکل370کو بحال کردے تو کشمیریوں کے حقوق مل جائیں گے۔ بالفرض ایسا ہی ہے تو حق خوداردایت کا کیا ہوگا؟۔ استصواب رائے کہاں جائے گا؟۔کیا یہ صرف مفروضات ہیں جس پر صرف قیاس آرائیاں ہی کی جا سکتی ہیں۔
اصل سوچنے کی بات یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لئے اب مزید کیا کرنا ہوگا۔ پر امن احتجاج اور دنیا بھر میں مظاہرے کئے، سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر اٹھا، اقوام متحدہ میں وزیر اعظم کو خصوصی اہمیت دی گئی۔ بھارت کے وزیر اعظم نے17منٹ تقریر کی،جبکہ عمران خان نے53منٹ خطاب کیا جس میں 26منٹ کشمیر کے موضوع پر تھے۔اقوام متحدہ میں ہر سربراہ کے لئے15منٹ مختص کئے جاتے ہیں لیکن وزیر اعظم کو اپنا نکتہ نظر بیان کرنے کے لئے اضافی وقت دیا گیا۔وزیر اعظم شاید فلسطین کا ذکر طویل خطاب کی وجہ سے بھول گئے ہوں، لیکن ذرائع کے مطابق پاکستان نے عرب ممالک کو ایک اشارہ دیا ہے کہ اگر عرب ممالک کشمیر پر بات نہیں کریں گے تو پاکستان بھی عرب ممالک کو درپیش مسئلے کو عالمی فورم میں نہیں اٹھائے گا۔ یہ بات تصور نہیں کی جاسکتی کہ اسرائیل کے مظالم و فلسطین کو بھلایا جاسکے۔ اس لئے قریب ترین قیاس یہی معلوم ہوتا ہے کہ وزیر اعظم نے دانستہ فلسطین کی بات نہیں کی۔ ورنہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے عمران خان نے واضح بیان دے دیا تھا کہ جب تک فلسطین پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔
اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اب اس معاملے کو کسی بھی زاویئے سے دیکھا جائے لیکن گھوم پھیر کا وہی سوال سامنے آتا ہے کہ اب پاکستان کیا کریگا؟۔سوال یہ نہیں رہا کہ اقوام متحدہ و سلامتی کونسل کیا کرے گی۔ کیونکہ انہوں نے70 برسوں میں کچھ نہیں کیا۔ کشمیر کے مسئلے پر پاک، بھارت تین جنگیں بھی ہوچکی ہیں۔ تاہم موجودہ صورتحال اس وقت انتہائی ناگفتہ بہ ہے کیونکہ ماضی کے مقابلے میں بھارتی رویہ انتہائی متشدد ہوچکا ہے، خواتین کی عصمت دری و گینگ ریپ میں اضافہ ہوچکا۔ مسلم کشی کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں اور آر ایس ایس اپنے انتہا پسندانہ رویئے کو جبراََ مسلط کرنے پر تلی ہوئی ہے۔
پاکستان اور بھارت اس وقت پوائنٹ آف نو ریٹرن پر آچکے ہیں۔ اس وقت پاکستان کی طرح بھارت کا پیچھے ہٹنا مودی سرکار کی سیاسی موت کا سبب بن سکتی ہے۔ پاکستان کو معاشی بدترین بحران کے باوجود تین اطراف سے جنگ کا سامنا ہے۔ ان حالات میں پاکستان کے لئے دو بڑے مسائل چیلنج کے صورت میں بھی ہیں۔پہلا یہ کہ بھارت نے جرمنی، جاپان اور برازیل کے ساتھ مل کر نام نہاد جی فور گروپ بنالیا ہے جو سلامتی کونسل کی مستقل نشست کے لئے ایک دوسرے کی حمایت کریں گے۔ سلامتی کونسل میں جی فائیو کی اجارہ داری کے خاتمے اور اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا جارہا ہے۔پاکستان جی فور گروپ کو اصلاحات کی راہ میں رکاؤٹ سمجھتا ہے۔تاہم بھارت تواتر لابنگ کررہا ہے۔اسی طرح بھارت نے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر ناپاک نظریں جمائی ہوئی ہیں۔
پاکستان کو شمالی مغربی سرحدوں پر بری طرح الجھا یا گیا ہے۔ افغان سرحد پر بارڈر کی تنصیب پر افغانستان کی سرزمین سے پاک فوج پر حملے روزانہ کا معمول بن چکے ہیں، اسی طرح مشرقی سرحدوں پر بھی بھارت کی اشتعال انگیزی رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ ان حالات میں پاکستانی و کشمیری عوام نے ریاست سے بہت زیادہ توقعات بڑھا لی ہیں کہ آج نہیں تو کبھی نہیں۔ مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ حل کرانے کے لئے پاکستان کی تمام تر سفارتی کوششوں کے باوجود عوام ریاست سے ڈومور کا مطالبہ کئے جا رہی ہے کہ ریاست بھارت کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے کے لئے لائن آف کنٹرول عبور کرنے کی اجازت دے، یہاں تک کہ عوام میں اس قدر غصہ و اشتعال ہے کہ اگر ریاست نے اجازت نہیں دی تو ممکن ہے کہ عوام ازخود تمام پابندیوں کو توڑ سکتے ہیں۔جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان جنگ کا ہونا لازمی ہوجائے گا۔
ریاست جنگ کی آخری سیڑھی پر فی الوقت نہیں جانا چاہتی۔ کیونکہ وزیر اعظم کہہ چکے ہیں کہ یہ روایتی جنگ نہیں ہوگی بلکہ دو ایٹمی ممالک کے درمیان ایک خطرناک جنگ ہوگی جس کے اثرات پوری دنیا تک جائیں گے۔ کسی بھی سربراہ مملکت کی جانب سے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے ایٹمی جنگ کے خطرات و خدشات کا اظہار کرنا ایک انتہائی غیر معمولی عمل ہے۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل اگر صرفِ نظر کرتے ہیں یہ انتہائی حیران کن عمل ہوگا۔اقوام متحدہ میں وزیر اعظم نے بین الاقوامی مبصرین کو دعوت دی کہ وہ آکر خود دیکھیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کا کوئی ٹریننگ کیمپ نہیں ہے۔ اسی طرح اقوام متحدہ کو مقبوضہ کشمیر میں مبصرین کو بھیج کر بھارت کے دعووں کا سچ تلاش کرنا ہوگا کیونکہ بھارت سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کے لئے نام نہادجی فور گروپ بنا کر لابنگ کررہا ہے۔
اگر ایک انتہا پسند ریاست کے ناپاک عزائم کو نہ روکا گیا تو تجارتی مفادات کی آڑ میں ایسا ملک کامیا ب بھی ہوسکتا ہے جو اپنی13سو کروڑ آبادی کو تجارتی منڈی کے ذریعے عالمی برادری کو بلیک میل کرتاہے۔عالمی برداری کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ مسئلہ کشمیر صرف ایک علاقائی تنازع نہیں ہے بلکہ مستقبل میں فسطائیت کے پرچارکوں کے مذموم عزائم کی عالمی سازشوں کا تیسرا صفحہ ہے۔
پاکستانی ریاست نے اب تک جو بھی عمل کیا وہ عالمی آئینی حدود میں رہتے ہوئے کیا۔ بلاشبہ سفارتی کوششیں دو مہینے کے عرصے میں مناسب رہیں تاہم مزید بہت کچھ کرنے ضرورت باقی ہے۔ ریاست کو بھارت کے جی فور گروپ کے سلامتی کونسل کی مستقل نشست حاصل کرنے کے عزائم کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا۔ تو دوسری جانب پاکستانی و کشمیری عوام سے کئے گئے وعدوں کو بھی پورا کرنا ہوگا۔ اس وقت پوری قوم کو برداشت و صبر کی اشد ضرورت ہے۔ وزیر اعظم اس وقت پوائنٹ آف نو یو ٹرن پر کھڑے ہیں۔ یہاں سے واپسی کا راستہ آسان نہیں ہے۔ خدانخواستہ عوامی توقعات کو ٹھیس پہنچنے پر اعتماد کی رہی سہی دیوار بھی ریت کا ڈھیر بن سکتی ہے۔