یہ ہر زمانے سے ہی ہوتا چلا آیا ہے اور ہمیشہ ہوتارہے گا، ایساصرف ہمارے ہی یہاں نہیں بلکہ ساری دنیا بھی میں ہوتاہے، یعنی کہ جو یہ بات جانتے ہیں کہ الفاظ میں بڑی طاقت ہوتی ہے، وہ ہر الفاظ کو ادا کرنے سے پہلے تولتے ہیں پھر بولتے ہیں، ہمارے یہاں سِوائے چند ایک سیاستدانوں کے یہ ہنر سب کو نہیں آتا ہے، اور جنہیں یہ ہنر آتا ہے وہ حقائق پر مبنی الفاظ ادا کرتے ہیں اور اِسے سمجھتے ہیں اور ایک منجھے ہوئے سیاسی کھلاڑی کے طور پر اپنے الفاط سے کھیلتے ہیں کیونکہ وہ یہ جانتے ہیں کہ حق گوئی کا اظہار کرنے والے الفاظ اپنا اثر کبھی زائل نہیں ہونے دیتے اور یہی وجہ ہے کہ وہ ہر الفاظ کو اِسی بنا پر بلاخوف وخطر استعمال بھی کرتے ہیں۔
جبکہ اِن کے برعکس جنہیں یہ فن نہیں آتاہے تو وہ کسی کے الفاظ سُن کر اِسے بتنگڑ بنا دیتے ہیں اور اپنی سمجھ وعقل کے مطابق ایسے ویسے اور کیسے کیسے؟ الفاظ ادا کرتے ہیں اور پھر اپنے ہی اداکئے گئے الفاظ میں خود ہی پھنستے ہی چلے جاتے ہیں،اَب یہاں میں ایسے لوگوں کے لئے ایک چینی کہاوت لکھ رہاہوںجس کے مطابق ” الفاظ کے پیچھے مت بھاگو بلکہ خیالات تلاش کرو، جب خیالات کا ہجوم ہو گا تو الفاظ خود بخود سمجھ آجائیں گے”کہاجاتاہے کہ ” الفاظ کی قوت کو پہنچان کر ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا تھا”جنت اور زمین مٹ سکتے ہیں مگر میرے الفاظ امرہیں۔
Words
راقم الحرف کا قوی نظریہ ،یہ ہے کہ ”الفاظ کی بھی اپنی ایک زندگی ہوتی ہے، الفاظ سانس لیتے ہیں، الفاظ وجود رکھتے ہیں، الفاظ حرکت کرتے ہیں، الفاظ بولتے ہیں،الفاظ احساسات رکھتے ہیں، الفاظ کو قید نہیں کیا جاسکتا ہے، الفاظ انقلابیوں کے لئے ایٹم بم سے زیادہ قوت رکھتے ہیں، الفاظ سنگدل کو بھی نرم کر دیتے ہیں، یہ الفاظ ہی توہیں، جن سے دنیا کو اپنا گرویدہ بنایا جا سکتا ہے، اور یہ الفاظ ہی توہوتے ہیں جن سے دُشمنوں کی تعدادبڑھائی جا سکتی ہے یعنی یہ کہ الفاظ بس الفاظ ہی نہیں ہوتے ہیں، الفاظ کے پیچھے پوری ایک کائنات اور سمندرکے جھانک جتنی وسعت اور اِس کی گہرائی سے زیادہ گہرائیاں ہوتی ہیں، لہذاجو لوگ نقطے سے الفاظ اور الفاظ سے بات اور پھربات سے بتنگڑبناتے ہیں اِنہیں لفاظی بھی بڑی احتیاط سے کرنی چاہئے ورنہ اِن کی بتنگڑپن کی عادت معاشروں اور سوسائٹیوں میں بگاڑ کا سبب بن جایا کرتی ہیں۔
جیساکہ آج کل میرے مُلک میں سیاستدانوں اور بالخصوص ایک جماعت کے قائد کے ایک نقطے کو پکڑ کر الفاظ اور الفاظ سے بات اور پھر بات سے بتنگڑ بنانے کا کام ہمارے سیاستدان اور ہمارا میڈیا خوب کرنے لگا ہے، ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہمارے میڈیا نے یہ کرنا اپنی بقاء اور ترقی کا ضامن سمجھ لیا ہے، اگریہ ایسانہیں کرے گا تو پھر اِس کی دُکان نہ تو چمکے کی اور نہ ہی چل سکے گی، جیسا کہ گزشتہ دِنوں ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے مُلک کی تین بڑی شخصیات (پرویزمشرف ، ایم کیوایم کے قائد الطاف حُسین کے حیدرآباد اور کراچی کے جلسے عام کے خطابات اور پی پی پی کے جوان سال سربراہ بلاول بھٹوزرداری کے سوشل میڈیاکے پیغامات)کے معاملات کو اپنے اپنے اندازاور اپنی اپنی پالیسزکے تحت اتنااُچھالاہے کہ اَج حیرت انگیزطورپر ایک گونگا بھی چیخ پڑاہے کہ” اَب کوئی اور بات کرو، کیا ایک ہی بات کو رٹائے جارہے ہو،”اور اِسی طرح جب ایک نابینا(آنکھوں میں روشنی آجانے کے بعد)بھی ایک ہی خبر کو باربار ٹی وی چینلزپر دیکھ دیکھ کر بیزارآگیاتو وہ بھی چلاّ اُٹھا کہ” کیا اِس ہی لئے بینائی کی دُعاکی تھی کہ سارے (نجی اور سرکاری) ٹی وی چینلزپر ایک ہی سین اور ایک ہی خبردیکھتارہوں ۔
جب ہمارے یہاں نقطے سے الفاظ اور الفاظ سے بات اور پھر بات سے بال اور بال کی کھال نکالنے کے لئے بتنگڑ فیکٹریاں ہمارا میڈیا لگا دے گا تو پھر یہی کچھ ہو گا جیسا ہمارے یہاں آج ہو رہا ہے، اور یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ ہمارے یہاں سوائے بتنگڑ کے کچھ نہیں ہو رہا ہے، اور جب تک بتنگڑ فیکٹریاں چلتی رہیں گیں، تو ہم یوں ہی ہرمعاملے میں اُلجھتے چلے جائیں گے، جبکہ ہمارے میڈیاسمیت ہم سب بھی یہ خوب جانتے ہیں کہ” لفظوں کے نشتر قوموں کی زندگی میں انقلاب برپا کر دیتے ہیں” تو پھر میڈیا سمیت کسی کوبھی یہ کسی بھی حال میں زیب نہیں دیتاہے کہ جمہوریت کا فائدہ اٹھا کر کوئی کسی کے حقائق پر مبنی الفاظ کا بتنگڑ بنائے اورالفاظ کی حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کرنے یاکرانے کے لئے کمر بستہ ہوجائے، اور مُلک میں اپنی اِس حرکت سے محبتوں کے بجائے انارگی اور نفرتوں کو پھیلائے، تو یہ ٹھیک نہیں ہے۔