ہلمند (جیوڈیسک) افغانستان کے بدنام ترین جنگی سرداروں میں سے ایک حکمت یار نے کابل حکومت سے امن معاہدہ کرنے کے بعد اپنی پہلی عوامی تقریر میں طالبان سے ہتھیار پھینک دینے اور مذاکرات شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
افغانستان کے جنگی سردار گلبدین حکمت یار افغان حکومت کے ساتھ ڈیل کے بعد پہلی مرتبہ منظر عام پر آئے ہیں۔ دارالحکومت کابل کے مشرق میں واقع صوبہ لغمان میں اپنے حامیوں کے سامنے طالبان کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’میں تمہیں امن کے کارروان میں شامل ہونے کی دعوت دیتا ہوں اور اس فضول، بے معنی اور غیر مقدس جنگ کو ختم کر دینا چاہیے۔‘‘
تاہم ان کا مزید کہنا تھا، ’’میں ایک آزاد، خود مختار اور اسلامی افغانستان چاہتا ہوں۔ فروری میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے حکمت یار کے خلاف پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کیا تھا تاکہ اس جنگی سردار کی افغان سیاست اور معاشرے میں اعلانیہ واپسی کو ممکن بنایا جا سکے۔
افغان حکومت نے حکمت یار اور ان کے عسکری گروپ حزب اسلامی کے ساتھ امن معاہدہ گزشتہ برس ستمبر میں کیا تھا۔ اس کے بعد افغان صدر اشرف غنی کا کہنا تھا کہ وہ حکمت یار کو خوش آمدید کہتے ہیں اور ماضی کا یہ طاقتور آدمی حکومت کے ساتھ تعاون کرے گا۔ متعدد افغان شہریوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے اس معاہدے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
حکمت يار کی تازہ تقریر کئی ٹیلی وژن چینلز پر براہ راست نشر کی گئی۔ سن دو ہزار ایک میں جب طالبان کا اقتدار ختم کر دیا گیا تو حکمت یار نے حکومت کا حصہ بننے سے انکار کرتے ہوئے غیر ملکی فورسز کے خلاف ’جہاد‘ کا اعلان کر دیا تھا۔
دوسری جانب افغانستان میں بدامنی کے شکار صوبہ ہلمند میں ایک مرتبہ پھر امریکی فوجیوں کو تعینات کر دیا گیا ہے۔ قبل ازیں سن دو ہزار چودہ میں نیٹو مشن کے اختتام تک امریکی فوجی اس علاقے میں تعینات تھے۔
تین سو امریکی مرینز کی تعیناتی کا اعلان ایک ایسے وقت پر کیا گیا ہے، جب ایک روز پہلے ہی طالبان نے ’موسم بہار کے حملوں‘ کا اعلان کیا ہے۔ امریکی فوجیوں کی دوبارہ تعیناتی ٹرمپ انتظامیہ کی افغانستان میں نئی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
طالبان صوبہ ہلمند کے 14 اضلاع میں سے 10 اضلاع کو موثر طریقے سے کنٹرول کر رہے ہیں جبکہ یہ علاقہ افیون کی پیداوار کے حوالے سے بھی مشہور ہے۔