تحریر: ریاض بخش میں گوبر کے ڈھیر میں پیدا ہوا ہر طرف ہریالی اور پانی کے تالاب تھے مجھے اپنے ماں باپ کا تو پتہ نہیں کہ وہ کون تھے اور اب کہاں ہیں۔ لیکن میں جہاں پیدا ہوا وہاں اور بھی کافی میرے جیسے تھے تو مجھے ماں باپ کی کمی محسوس نہ ہوئی ہمیں عام زبان جو لوگوں نے ہمیں نام دیا ہے کیونکہ جب ماں باپ کا نہیں پتہ تو نام کا کیا پتہ ہوگا ۔؟خیر لوگ ہمیں مچھر کہتے اور لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے میں زہر ہوتی ہے۔۔۔
جیسے جیسے ہم بڑے ہوتے گئے ہم ایک دوسرے سے بچھڑ گئے۔ جہاں میں رہتا تھا وہاں سے ایک جانور کو کہی لے جایا جا رہا تھاتو میں بھی اس کی دم پر بیٹھ گیا اور ان کے ساتھ چلا گیا رات ہو گئی صبح مجھے پتہ چلا کہ ہم کسی بڑے شہر میں آگئے ہیں۔۔کہی تو بکریاں تھی کئی بھیڑیں کئی بیل اور کئی بھینس۔مجھے انتہا کی بھوک لگی ہوئی تھی ہمیں جب بھوک لگتی ہے تو ہم خون سے اپنی بھوک مٹاتے ہیں۔۔اور رات کے اندھیرے میں ہم اپنی پیاس بجھاتے ہیںدن تھا اسلئے چپ چاپ ایک ڈھیر میں گھس گیا اور سو گیا۔۔
رات ہوئی میں ڈھیر سے باہر نکلا ادھر ادھر دیکھا لوگ جانوروں کے پاس کچھ سوئے ہوئے تھے اور کچھ بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ خیر میں ایک بندے کی چارپائی کے پاس گیا آپکو بتاتا چلو کے ہم وار کرنے سے پہلے تسلی کرتے ہیں کہ بندہ سچ میں گہری نیند سو رہا ہے یا نہیں ۔۔۔ہم کیسے تسلی کرتے ہیں ؟ہم انسان کے کان کے قریب جاتے ہیںاور آواز کرتے ہیں۔ اگر وہ سو رہا ہے تو اسے نہیں پتہ چلے گا۔اگر وہ جاگ رہا ہے تو ہلے گا اور ہم اڑ جاتے ہیں۔
Father and Mother
میں بھی اس بندے کے کان کے پاس گیا آواز کی وہ تھوڑا سا ہلا میں اڑ گیا پھر دوسری چارپائی کے قریب گیا اس بندے کے کان میں آواز کی وہ ہلا نہیں کیونکہ وہ گہری نیند سو رہا تھا ۔میں نے موقع غنیمت سمجھا اور اس بندے کے گال پے کاٹ لیا جب کاٹا تومجھے لگا میں جنت کی حسین وادیوں میں گھو م رہا ہوں اتنا مجھے مزہ آج تک نہیںآیا ۔۔کیونکہ پہلے میں نے انسانوں کا خون پیا ہی نہیں تھا۔جانوروں کا پیتا رہتا تھا اتنا مزہ نہیں آتا تھا دوسری بارجب میں نے کاٹا تو اس بندے نے اچانک اپنا ہاتھ گال پے دے مارہ میرے تو ہوش ہی اڑ گئے اور اللہ کا شکر ادا کیا اور میں بال بال بچ گیا۔
گھبرا تو میں گیا اور بہت زیادہ ڈر گیا اور اپنے آپ کو تسلی دی کہ اب میں اور خون نہیں پینا چاہتا بلکہ آرام کرنا چاہتا ہوں ۔خیر میںڈھرمیں گھس گیا اور سو گیا ڈرا ہوا تھا اسلئے آنکھ بند ہی ارو نیند کی داوی مہربان ہو گئی۔دوسرے دن میں چار بجے اٹھابھوک سے جان نکل رہی تھی ۔۔دن کا اجالا تھا اسلئے کوئی سو تو رہا نہیں تھا ۔اور رات والا واقع بھی یاد تھا اس لئے انسانوں کے قریب جانے کا رسک نہیں لے رہا تھا تھوڑی دیر یہاں وہا ں دیکھتا رہا مگر میرا بھوک سے برا حال ہو رہا تھا۔۔
رات والا ڈر بھی تھا ارو مزہ بھی یاد تھا ۔خود کو کافی سمجھایا۔مگر میرے اندر لالچ ارو بھوک دونوں کا وجود بن گیا۔میری نظر ایک موٹے بندے پر پڑی اور میں اس کی طرف چل پڑا ۔۔دن تھا اسلئے گال پے تو کاٹ نہیں سکتا تھا میں نے اس بندے کی ٹانگ پر کاٹنے کا سوچا اوراس کی شلوار میں گھس گیا ۔جیسے ہی میں نے اس کو کاٹا مطلب اپنا ڈنگ مارا تو میں زمین پر گر پڑا اس کے بعد کیا ہوا مجھے کچھ یاد نہیں۔
Dengue Mosquito
میری آنکھ کھلی ایک سفید کمرے میں ۔۔میں سفید چادروں کے بیچ پڑاہوا تھا ۔ تب مجھے پتا چلا کہ میں تو بھائی ہسپتال میںہوں مجھے ڈرپ لگی ہوئی تھی تھوڑی ڈیر بعد نرس آگئی ۔۔میں نے اس سے ایک ہی سانس میں پوچھا مجھے کیا ہوا ہے میں یہا ںکیوں آیا ہوں مجھے کون لایا ہے۔ نرس SADسا چہرہ بناتے ہوئے بولی بھائی آپ ہسپتال میں ہو آپکو ایک موٹا سا بندہ یہاں چھوڑ کے گیا ہے۔
آپ کی فیملی سے کوئی آسکتا ہے میں نے کہا کیوں مجھے کیا ہوا ہے۔نرس بولی آپکو ڈینگی مچھر نے کاٹ لیا اور آپ کو ڈینگی ہوا ہے آپ چند دنوں کے مہمان ہو میں چپ چاپ نرس کو غروتا رہا ارو خود سے بات کرنے لگ گیا۔میں نے تو انسان کو کاٹا ہے میں تو مچھر ہوں مجھے بھلا ڈینگی کیسے ہو سکتا ہے میں تو خود ڈینگی ہوں۔ہم جس کو کاٹتے ہیں اس کو تو بس معمولی سا بخار ہوتا ہے مگر یہاں تو ساری کہانی ہی الٹاہو گئی۔بھائیوں میری ایک نصیحت ہے آپ سب سے کہ لالچ بری بلا ہے۔اس سے بچنا ہمارے میں تو بس معمولی سازہر ہوتا ہے مگر انسان میں کتنا زہر ہے مجھے آج پتا چلا۔