تحریر : ایم آر ملک تاحد ِ نظر قبریں ہی قبریں تھیں ،گیلی مٹی ان قبروں کی تازگی کا پتہ دے رہی تھی شہر خاموشاں میں یہ 17 قبریں ایک ہی قطار میں تھیں انہی قبروں کی قطار میں چاچا عمر حیات کے آٹھ جواں بیٹوں ،دو پوتیوں ایک پوتے، ایک نواسے،ایک بہو اور ایک بیٹی کی قبریں اجل کے بے رحم ہاتھ کا پتہ دے رہی تھیں۔ ہر طرف موت کی ارزانی دیکھتے روزنامہ نئی بات کی ٹیم متاثرہ گائوں پہنچی تو گائوں میں مچے کہرام پر دل و دماغ کی عجیب کیفیت تھی ۔ذہن صرف شہر ِ آشوب لکھنے پر آمادہ نظر آیا۔
انسانی طبائع پر خارجی محرکات سے انکار کرنے والے اور فرد کی نفسیات کو سماج سے علیحدہ کر کے اُس کا مطالعہ کرنے والے بھی اب اِس امر کا اعتراف کرنے لگے ہیں کہ آدمی باہر سے اندر کی طرف بھی سفر کرتا ہے یعنی خارج سے داخل کی سمت۔ لکھنے والوں نے دکھ کے سمندر میں ڈوبے جانے کتنے الفاط صفحہ قرطاس پر بکھیرے مگر موت کی اُس بستی کے باسیوں کی کہانی ڈبڈباتی آنکھوں اور کپکپاتی انگلیوں سے ضابطہء تحریر میں لانے پر انسانیت کا کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ جانے کیوں انسان پر حیات و مرگ کا عقدہ نہ کھُل سکا ۔یہ انسان جو تسخیر کائنات کے پوشیدہ رازوں کو آشکار اکرتا ہے ،ستاروں پر کمندیں ڈالتا ہے اور چاند پر پرچم نصب کرنے کا دعویدار ہے کتنی آسانی سے موت سے شکست کھا جاتا ہے۔
Umer Hayyat
ملحقہ گائوں سے آئے چاچے محمد دین کا کہنا تھا بیٹا یہ سلسلہ مرگ و حیات ،یہ ہنگامہ تعمیر و تخریب ازل سے تا ابد یونہی جاری رہے گا ہماری حیثیت تو اس کائنات میں صرف تماشائی کی ہے۔ وہ کہہ رہا تھا کہ میری آنکھ نے اس ہنگامہ شب و روز میں اس گائوں کے 17افراد کو سفر ِ آخرت پر جاتے دیکھا ہم نے تفصیل جاننا چاہی تو چاچا محمد دین کہنے لگا کہ مرنے والوں میں بیٹا کس کس کو یاد رکھیں اور کس کس کو روئیں ایک ہو تو صبر کر لیں ابھی تمہارے آنے سے کچھ دیر پہلے تین سالہ بلال کا جنازہ میرے ان ناتواں کندھوں نے اُٹھایا ایک لمبی قطار ہے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے سب کو جانے کی جلدی تھی ‘تو چل میں آیا ”والا معاملہ ہے کارِ خدا وندی میں مداخلت بھلا کون بنا ہے ۔بد قسمت والدین کی باہیں جوان بیٹوں کی لاشیں اُٹھااُٹھا کر تھک جائیں تو اعصاب شل ہو جاتے ہیں ۔آسودگی کے سب در بند ہو جائیں تو خاموشیاں بلاجواز مسلط نہیں ہوا کرتیں اور جب یہ احساس ہوجائے کہ بھرے گھر میں کوئی آہ و بکا کرنے والا نہیں بچا تو شفقت پدری خود کو حالات کا مجرم تصور کرتی ہے۔
جنوبی پنجاب کے پسماندہ ضلع لیہ کے گائوں چک نمبر 105ایم ایل کے عمر حیات کے ساتھ بھی یہی کہانی جڑی ہوئی ہے معذور عمر حیات نے بلوغت میں قدم رکھا تو معذور ہونے کے باوجود اُس کے ذہن کے کسی گوشے میں یہ احساس نہ جاگا کہ وہ معذور ہے احساس کمتری نے جنم نہ لیا بھائی کی شادی ہوئی تو خوب خوشیاں منائی گئیں عرصہ دراز ہوا مگر اولاد جیسے پھل سے محروم رہا خواہشات اور تمنائوں کا کوئی معیار نہیں ہوا کرتا انسان جس ماحول میں شب و روز گزارتا ہے وہان طعنہ زنی مقدر ہو جائے تو اولاد کی خواہش پروان چڑھتی ہے بھائی کی دوسری شادی اسی خواہش کا شاخسانہ تھی مگر فیصلوں کی ڈور آسمان والی طاقت کے پاس ہے وہی ہوتا ہے جو منظور ِ خدا ہوتا ہے دوسری بیوی سے بھی اولاد نہ ہوئی اس دوران بوڑھے والدین نے دوسرے بیٹے عمر حیات کی شادی کردی ایک برس کے بعد پہلے بیٹے ارشاد کی پیدائش ہوئی دادا ،دادی ،چچا کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ مٹھائیان تقسیم کی گئیں۔
Layyah Incedent
خوشی کی تقریب میں رشتہ داروں کو بلایا گیا وقت کو پر لگے ،سمے کو گزرت دیر نہیں لگتی عمر حیات کے من میں خدا کے شکر کے سوا کوئی چارہ نہ تھا یکے بعد دیگرے سجاد ،خضر ،رمضان ،عرفان ،سکندر ،شیرمحمد ،شہبازگھر میں آئے اور قدرت کی رحمت کی شکل میں دو بیٹیوں کی پیدائش ہوئی معاشی طور پر تنگد ست اور معذور ہونے کے باوجود عمر حیات ٹریکٹر ڈرائیوری کے ذریعے پیسے کما کر اپنے بچوں کو پالتا رہا بچوں نے بھی کبھی اپنے والد کو تھکتے نہ دیکھا ایک مشین کی طرح عمر حیات اپنے گام میں مگن ،سوچ اور دوسروں کے احساس میں مصروف نظر آیا اب بیٹے جوان تھے اور عمر حیات کے قوت بازو ،سات ایکڑ رقبہ گائوں کے نزدیک تھا باپ اور بیٹے ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتے رمضان نے قریبی صنعتی یونٹ انور کاٹن فیکٹری میں بطور مالی جاب کرلی جبکہ سجاد نے 111ٹی ڈی اے موڑ پر ویلڈنگ کی دکان کرلی بڑے بیٹے ارشاد کی شادی نواحی گائوں میں کردی اور ارشاد کے ہاں ایک بیٹے حسیب بیٹی ارم اور شائستہ نے جنم لیا۔
اب دادا عمر حیات اپنے پوتے اور پوتیوں سے دل بہلاتا گود میں اُٹھا کر اُن سے پیار کرتا یہ گھر گائوں بھر میں حقیقی خوشیوں کا گہوارہ تھا آٹھ بیٹے جوان تھے اور عمر حیات معاشی طور پر خوشحال ہو چکا تھا اس دوران سجاد کی بھی شادی کر دی گئی چھ برس کا طویل عرصہ گزرا لیکن سجاد کے گھر کوئی کلی نہ کھلی ماں کی دعائیں تھیں کہ بیٹے کے انگن میں کوئی رونق ہو ماں کی دعائیں عرش پر پہنچ کر قبولیت پاگئیں اور سجاد کے آنگن میں ایک پھول کھلا اتنی مدت کے بعد پوتے کی آمد پر دادا،دادی تو کجا نومولود کے چچا خوشی سے پھولے نہ سما رہے تھے مرجھائے چہروں پر رونق تھی سجاد اور ارشاد کو دادا نے کہامتصل گائوں چک نمبر 103ایم ایل سے جاکر مٹھائی لے آئو گائوں کے لوگوں کا اس خوشی کے موقع پر منہ میٹھا کرانا ہے چک نمبر105ایم ایل کو آتے ہوئے رستہ میں ایک گائوں 110ٹی ڈی اے آتا ہے جہاںاُن کا ایک دوست اکبر علی رہتا ہے جس کے چھ بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں آتے ہوئے رستہ میں سجاد نے جب اُسے بیٹے کی پیدائش کی بابت بتایا تو وہ بہت خوش ہوا اُس نے کہا کہ تم چک نمبر103کو نہ جائوگیارہ موڑ پر ایک مٹھائی بنانے والے کی دکان ہے جو بہت اچھی مٹھائی بناتا ہے فتح پور روڈ سے متصل قاضی آباد لیہ روڈ پر ٹیل انڈس سٹاپ آتا ہے اس اڈہ سے ایک سڑک چک نمبر 111ٹی ڈی اے کو جاتی ہے اس شاہراہ کے ابتدامیں مذکورہ چک کے دو بھائی طارق محمود اور خالد محمود عرصہ دراز سے مٹھائی کا کام کرتے ہیں اُس کی دکان سے اکبر علی ،ارشاد اور سجاد نے لڈوخریدے اور خوشی خوشی گھر کی راہ لی رستہ میں یہ لڈو اُنہوں نے اکبر علی کے گھر بھی دیئے جو اکبر علی کے بڑے بیٹے کے سوا تمام گھر والوں نے کھائے۔
Fatehpur Layyah
ارشاد اور سجاد گھر پہنچے تو تمام بھائی اس زہریلی مٹھائی کے انتظار میں تھے نومولود کی والدہ کے سوا تما م گھر والوں نے یہ لڈو کھائے عمر حیات کے نواسے سرور ،پوتی ارم ،شائستہ اور پوتے حسیب نے بھی یہ لڈو کھائے عمر حیات کے ایک بیٹے رمضان نے نہ صرف یہ لڈو خود کھائے بلکہ انور کاٹن فیکٹری جس میں وہ کام کرتا تھا وہاںکے چوکیدار کے بیٹے کو بھی دیئے عمر حیات نے پورے گائوں کو یہ لڈو بانٹنے کیلئے بھیجنا چاہے تو بارش شروع ہو گئی جبکہ اُنہوں نے ساتھ کے پڑوسی بشیر اور نذیر کے گھروں میں یہ لڈو بانٹ دیئے عمر حیات خوشی کے یہ لڈو بانٹ رہا تھا اور تقدیر دور کہیں ہلاکت کے جالے بننے میں مصروف تھی عرفان کو کچھ دیر کے بعد قے شروع ہو گئی۔
کاٹن فیکٹری میں جب رمضان کی حالت غیر ہوئی تو وہ بھی کاٹن فیکٹری سے چھٹی لیکر گھر کو لوٹا گھر پہنچنے تک اُس کی حالت غیر ہوچکی تھی اور ہمت جواب دے چکی تھی گائوں کی نکڑ پر اُس کے ایک دوست کی دکان تھی وہ وہاں پڑی چارپائی پر آکر گر گیا اُس کے دوست نے جب رمضان کی یہ حالت دیکھی تو اپنے گھر میں کھڑا کیری ڈبہ نکال لایا اس دوران عرفان اور دیگر گھر واوں کی حالت غیر ہوچکی تھی دوست نے کیری ڈبہ میں سب کو ڈالا اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال لیہ لے آیا جہاں مسیحا قاتل کے روپ میں بیٹھے تھے اُنہوں نے چھ گھنٹے بستر مرگ پر تڑپتے اس بد قسمت خاندان کو پوچھا تک نہ تشخیص تک نہ کی بالآخر ننھے حسیب ،چار سالہ ارم ،شائستہ اُن کی والدہ اور پندرہ سالہ سرور نے مراکز مسیحائی پر تعینات مسیحائوں کی بے حسی کی گود میں تڑپتے جان دیدی اب ڈاکٹرز کو فکر لاحق ہوئی عرفان کے منہ سے جھاگ بہنا شروع ہو گئی تو جان چھڑانے کیلئے اُن کے معدے واش کرنے کے بجائے فوڈ پوائزنگ کی ادویات دی گئی اور تمام کو نشتر ہسپتال ملتان ریفر کر دیا گیا سرکاری ایمبولیس والوں نے فی کس 6500روپے وصول کئے مگر رستہ میں عرفان جانبر نہ ہو سکا اور دم توڑ گیا۔
Janaza
اس بدقسمت ضلع کے متاثرین کو اس کے باوجودبنیادی سہولیات کی فراہمی ممکن نہ ہوسکی کہ نشتر ہسپتال میں تعینات ایم ایس ڈاکٹر عاشق حسین چدھڑ ،اور ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ مختار شاہ اس کے باسی ہیںاجل نے گھروں میں صف ِ ماتم بچھا دی ہے چک نمبر110کے اکبر علی کے تین بیٹے موت کے منہ میں چلے گئے ،سہو برادری کے چھ افراد مرچکے ہیں باقی ماندہ 53متاثرین الائیڈ ہسپتال فیصل آباد ،جناح ہسپتال لاہور ،ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال لیہ ،ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال گھکر ،تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال کروڑ میں موت کے منڈلاتے سائے میں سانسیں گن رہے ہیں ہر لمحہ آہستہ خرام موت کو اپنی جانب بڑھتا دیکھ رہے ہیں پنجاب اسمبلی میں لیڈر آف اپوزیشن محمودالرشید نے اس واقعہ پر تحریک التوا جمع کرائی ہے اور حکومت پنجاب کی طرف سے فوڈ اتھارٹی بھی خواب استراحت سے جاگ چکی ہے عائشہ ممتاز چھاپے مارنے پہ لگی ہوئی ہیں جبکہ صوبائی وزیر خوراک بلال یٰسین متاثرین کے ہاں چیک تقسیم کرنے پہنچے ہیں اتنی بڑی تعداد میں ہونے والی اموات پر عوامی حلقوں میں یہ سوالات زبان زد ِ عام ہیں کہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال لیہ میںسانحہ کے روز ڈیوٹی پر 26اکٹرز میں سے صرف دوکیوں حاضر تھے اور اُنہوں نے معدہ واش کرنے کے بجائے فوڈ پوائزنگ کی ادویات پر اکتفا کیوں کیا۔
جبکہ ابھی تک مرنے والوں کی اموات کا سبب بنے والے کیمیکل کا تعین تک نہیں کیا جا سکا گزشتہ روز جناح ہسپتال کی ٹیم ڈاکٹر سہیل بخاری اور ڈاکٹر جہانگیر کی قیادت میں متاثرہ چک پہنچی تو میڈیا کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ ہم تو متاثرین کے خون کے نمونہ جات حاصل کرنے آئے ہیں تاکہ تعین کیا جاسکے کہ اتنی اموات کیسے ہوئیں یعنی ابھی تک اموات کا سبب بننے والے زہر کا تعین نہیں کیا جاسکتا نیلسن منڈیلا نے کہا تھا کہ جس ملک میں تعلیم اور صحت کے شعبہ کو بطور تجارت استعمال کیا جائے وہ معاشرے اپنی بقا قائم نہیں رکھ سکتے فنا ہو جا تے ہیں ڈاکٹرز نے پرائیویٹ ہسپتالوں کی شکل میں اپنے صنعتی ایمپائر کھڑے کر رکھے ہیں جو مذبحہ خانوں سے کسی طرح کم نہیںغریب آدمی جن کی دہلیز پار نہیں کر سکتا۔