پولینڈ (اصل میڈیا ڈیسک) پولینڈ میں دوسری عالمی جنگ کے دوران ضبط کی گئی املاک کی واپسی کا حق انتہائی محدود کر دیا گیا ہے۔ اس مناسبت سے پولستانی پارلیمان نے ایک قانون کی باضابطہ منطوری دے دی ہے۔
نئی قانون سازی کے بعد ضبط شدہ املاک کے حوالے سے کیے گئے کسی بھی حکومتی فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرنا ممکن نہیں رہا۔ اس میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ تیس برس قبل اور دوسری عالمی جنگ کے بعد کسی ضبط شدہ جائیداد پر کوئی بھی شخص حق جتانے یا کلیم کرنے کا مجاز نہیں۔
اس نئے قانون کی منظوری بظاہر یہودیوں کو کمیونسٹ دور میں ضبط کی گئی املاک کی واپسی کو روکنا خیال کیا گیا ہے۔ اس قانون کی پولش پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں نے منظوری دے دی ہے اور اب اس کی حتمی توثیق ملکی صدر اندرس ڈُوڈا نے دینی ہے۔ اسی حتمی توثیق کے بعد ہی یہ منظور شدہ بل قانون کی صورت اختیار کرے گا اور نافذ ہو سکے گا۔
اس متنازعہ بل کے پارلیمانی منظوری کے عمل سے اسرائیل اور پولینڈ کے درمیان تناؤ پیدا ہو گیا تھا اور یہ کیفیت اب بھی پائی جاتی ہے۔ اسرائیل نے اس قانون کے حوالے سے پولش سفیر کو طلب کر کے اپنے خدشات سے بھی آگاہ کیا۔
اسرائیلی وزیر خارجہ یائیر لاپیڈ نے اس قانون کی پولستانی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد اس کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون ہولوکوسٹ کی یادوں کو جہاں نقصان پہنچائے گا وہاں متاثرین کے حقوق کو بھی متاثر کرے گے۔
اسرائیلی وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ وہ ہر اس کوشش کی مخالفت کریں گے جس کا مقصد تاریخ کو دوبارہ مرتب کرنا ہے اور پولینڈ کے لوگوں کا یہ حق ہے کہ وہ حقائق سے آگاہی حاصل کر سکیں۔ لاپیڈ نے اس نئے قانون کی منسوخی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
نئی قانون سازی کے حوالے سے بھی سخت امریکی ردعمل سامنے آیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اس پولستانی قانون سازی سے امریکا کو تکلیف ہوئی ہے۔ بلنکن کے مطابق اس قانون سے ہولوکوسٹ سے بچ جانے والوں اور ضبط شدہ املاک کے مالکان کو شدید دکھ اور مشکلات کا سامنا ہو گا۔ امریکی وزیر خارجہ نے پولینڈ کے صدر ڈُوڈا سے درخواست کی ہے کہ وہ اس منظور شدہ بل کی توثیق کرنے سے گریز کریں۔
انٹونی بلنکن کا یہ بھی کہنا ہے کہ پولینڈ میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک ایسی جامع قانون سازی کی جائے، جس کے تحت ضبط شدہ جائیدادوں کے معاملے کو خوش اسلوبی کے ساتھ حل کیا جائے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ متاثرین کے ازالے کا راستہ کسی بھی صورت میں بند نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس مناسبت سے کئی نئے دعوے ابھی عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں۔ بلنکن نے بھی نئی قانون سازی کی پرزور مذمت کی ہے۔