سندھ پولیس میں 1200غیر قانونی بھرتیوں سمیت جہاز کے بغیرجیٹ فیول خریدنے کا انکشاف

Police

Police

کراچی (جیوڈیسک) سندھ اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ سابقہ آئی جی کے دورمیں سندھ پولیس میں12سو غیرقانونی بھرتیاں کی گئیں جبکہ سندھ پولیس کے پاس کوئی جہاز نہ ہونے کے باوجود جیٹ فیول کی خریداری کی مد میں ایک کروڑ روپے خرچ کردیے گئے۔

کمیٹی کا اجلاس چیئرمین سیداویس قادرشاہ کی صدارت میں ہواجس میں سیکریٹری داخلہ سندھ، آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ، اسپیشل سیکریٹری ریاض سومرو، رکن اسٹینڈنگ کمیٹی غلام قادر چانڈیو سمیت محکمہ داخلہ کے اعلی افسران اور کراچی سمیت سندھ کے دیگراضلاع کے ایس ایس پیز نے شرکت کی۔ قائمہ کمیٹی نے سوال کیاکہ سکھرمیں پولیس نے ایک کروڑ روپے کا جیٹ فیول خریدا ہے، پچھلے آئی جی کے دور میں ہونے والی اس خریداری کی حقیقت کیا ہے، سندھ پولیس کے پاس کوئی جہاز نہیں توجیٹ فیول کیسے خریدا جا سکتا ہے

۔ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے کمیٹی کو بتایا کہ یہ بات میرے علم میں آئی ہے لیکن کچھ ایسے معاملات ہیں جو بتانا مناسب نہیں، اگر قائمہ کمیٹی چاہے تو ہم ان کوبند کمرے میں بتا سکتے ہیں،ضرب عضب آپریشن اور کراچی ٹارگٹڈ آپریشن کے ذریعے دہشت گردی کے ناسور پر قابو پانے کیلیے کوششیں جاری ہیں ،کراچی میں دہشت گردی کے واقعات میں عالمی قوتوں کے ملوث ہونے کے شواہد ملتے رہے ہیں۔ اسٹینڈنگ کمیٹی کے رکن غلام قادر چانڈیو نے کہاکہ ایس ایس پی لیول کے افسران کارویہ عوام کے ساتھ بہتر ہے لیکن نچلے درجے کے پولیس افسران کو سدھار نے کی ضرورت ہے،محکمہ پولیس میں ٹرانسفر پوسٹنگ کوبھی شفاف بنایا جارہا تاکہ ان سے بہترکام لیا جا سکے، ایس آر پی سکھر میں بے ضابطگیوں پرکمیٹی بنائی گی تھی، کراچی 160 غیرقانونی بھرتیاں کی گئی تھیں۔ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق خلاف ضابطہ بھرتیاں ہو رہی تھی اب سپریم کورٹ بھی ان کیخلاف کارروائی کا حکم دے چکی ہے۔

کمیٹی کے چیئرمین غلام قادر شاہ نے کہا کہ پولیس کے جوان اتنی قربانیاں دے رہے ہیں لیکن ان کے ورثا کو نہ معاوضہ ملتاہے نہ نوکری،ہمارے پاس شہید اہلکاروں کے ورثا آتے ہیں کہ انھیں کچھ نہیں مل رہا،ہماری جانب سے مانگی گئی تفصیلات اب تک کمیٹی کو فراہم نہیں کی گئی۔ آئی جی سندھ نے کمیٹی کو بتایا کہ شہید اہلکاروں کے ورثا کی شکایات جائز ہیں لیکن اب ہم نے بہت مسئلے حل کر دیے ہیں۔ چیئرمین اسٹینڈنگ کمیٹی اویس قادر شاہ نے کہا کہ پولیس فورس میں پہلے غیرقانونی بھرتیاںکی گئیں اور پھر انھیں ٹریننگ دے کر نکال دیا گیا، سپریم کورٹ کا حکم سر آنکھوں پر لیکن اب وہ ٹریننگ یافتہ لوگ کہاں جائیں گے، اگر مطلوبہ طریقہ کار اپنایا نہیں گیا تو ان افسران کے خلاف کیاکارروائی ہوئی،اگر کل کو وہ لوگ پولیس ٹریننگ کا غلط استعمال کریں گے تواس کا ذمے دارکون ہوگا؟جعلی بھرتیاں کرنے والے افسران کو نشان عبرت بنایا جاناچاہیے۔

آئی جی سندھ نے کہاکہ پولیس میں تقرریاں میرٹ کی بنیاد پر کی جائیں گی، 1200 سے زائدپولیس اہلکاروں کی بھرتی میں قواعدو ضوابط کو بائی پاس کیاگیا ،ایک ضلع میں 400 پولیس اہلکاروں کے قد کی پیمائش ایک جیسی لکھی گئی،نیب پولیس میں غیرقانونی بھرتیوں کی تحقیقات کررہی ہے، غیرقانونی بھرتی ہونے والے پولیس اہلکاروں کو بطور آئی جی کوئی فائدہ نہیں دے سکتا ہوں، ریزرو پولیس میں بھرتی کیلیے اشتہار دے رہے ہیں،پولیس کے پاس جو گاڑیاں ہیں وہ ناکافی ہیں،بہت سی گاڑیاں تو سیاستدانوں کے پروٹوکول اور سیکیورٹی میں ہوتی ہیں۔ سیکریٹری داخلہ سندھ نے کمیٹی کو بتایا کہ صوبے میں 19 انسداددہشت گردی کی عدالتیں کام کر ہی ہیں جن میں سے 10 کراچی اور باقی 9 مختلف اضلاع میں ہیں جبکہ 10 مزید عدالتیں کراچی سینٹرل جیل اور10سندھ کے دیگر اضلاع میں بنائی جا رہی ہیں، اپیکس کمیٹی کے فیصلوں کے تحت 30 عدالتیں بڑھانی ہیں، انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کے ججزکو دہشت گردوں سے خطرات ہیں۔