کوئٹہ (جیوڈیسک) کوئٹہ کے مضافات میں واقع پولیس کے تربیتی کیمپ پر ہلاکت خیز حملے کے سوگ اور احتجاج میں بدھ کے روز صوبائی دارالحکومت میں تمام کاروباری سر گرمیاں معطل رہیں ، جبکہ سڑکوں پر گاڑیوں کی آمدورفت نہ ہونے کے برابر تھی ۔ وکلاء برادری نے بھی پیر کی شب کو ہونے والے ہلاکت خیز واقعے کے خلاف عدالتوں کا بائیکاٹ کیا۔
ادھر سر کاری تحقیقاتی ادارے سر یاب روڈ پر پولیس کی تر بیت گاہ میں شواہد اکٹھے کر نے اور اس پر حملے کے منصوبہ سازوں کا سراغ لگانے کی کو ششوں میں مصروف ہیں لیکن تاحال کسی بڑی پیش رفت کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
کو ئٹہ میں تاجروں کی تنظیم کے راہنما اللہ داد ترین گفتگو کرتے ہوئے اس حملے میں مبینہ طور پر بھارت کے ملوث ہونے کے صوبائی حکومت کے بعض عہدیداروں کے باتوں سے اتفاق کیا ۔ لیکن اُن کا کہنا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اگر موثر انداز میں اپنی ذمہ داریاں نبھائیں تو ایسے واقعات کو روکا جاسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت ہو یا کوئی بھی ملک ، جو یہاں مداخلت کر تے ہیں اس کی ہم مذمت کرتے ہیں۔ اس میں کو ئی شک نہیں ہوگا کہ بھارت یہاں مداخلت کر رہا ہوگا لیکن اس کے ساتھ ساتھ بھارتی مداخلت کو روکنے کی ذمہ داری ہمارے ملک کے اداروں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے ملک کے عوام کے جان ومال کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات اُٹھائیں،،۔
پولیس اکیڈمی پر حملے کے بعد کوئٹہ کے رہائشی خاصے خوفزدہ ہیں اور یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر پولیس خود اپنے اداروں کا تحفظ نہیں کر سکتی تو عام شہریوں کی حفاظت کیسے یقینی بنائے گی۔
بلوچستان کی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف مو لانا عبدالواسع نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جلد سے جلد ان سوالات کا جواب دے، جو پولیس کی تر بیت گاہ پر ہونے والے حملے کے بعد اُٹھائے جارہے۔
انہوں نے کہا کہ جب یہ بچے فارغ ہو گئے تھے اور ان کی پاسنگ آؤٹ پر یڈ ہوگئی تھی ، اور وہ گھروں میں چلے گئے تھے اور حکومت بلوچستان نے ہر ایک کو ٹیلیفون کر کے اُنہیں واپس آنے کے لیے کہا اور یہاں تک سختی سے کہا کہ اگر کو ئی واپس نہیں آیا تو پھر اپنے آپ کو نوکری سے فارغ سمجھے۔ افسوس کی بات یہ ہے لوگ کہتے ہیں کہ دیوار نہیں بنی ، میں دیواروں پر نہیں جاؤں گا،،۔
صوبائی وزیر عبدالرحیم زیارتوال کو دئیے گئے انٹر ویومیں بعض کو تاہیوں کا اعتراف کیا تاہم انہوں نے کہا کہ تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ہی ذمہ دار افراد کے خلاف حکومت کاروائی کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ تحقیقات کے حوالے سے ہر اہم ادارے کے ذریعے ہم تفتیش کر انے کے لئے تیار ہیں لوگوں کے اطمینان کے لئے، پارٹیوں کے اطمینان کے لئے، عدلیہ سے بھی کر انا چاہیں تب بھی اُس پر جائیں گے انشاءاللہ تحقیقات کر ینگے ، معلومات حاصل کریں گے کہ ایسا کیوں ہوا۔
کو ئٹہ میں پولیس اکیڈمی پر ہونے والے حملے میں ہلاک اور زخمی ہونے والے زیر تر بیت اہل کاروں کی اکثریت کا تعلق بلوچستان کے دور دراز اضلاع سے تھا اور اُن میں بعض اپنی تر بیت مکمل کرنے کے بعد اپنے گھروں کو جانے کے لئے تیاری میں مصروف تھے۔
مشرف غوسطیٰ میں سر گرم عمل دولت اسلامیہ یا داعش نے کوئٹہ میں کئے جانے والے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے لیکن صوبائی وزیر داخلہ میر سر فراز بگٹی نے اس دعوے کی تر دید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس دہشت گردی میں مقامی انتہا پسند تنظیموں کا ہاتھ ہے۔