پولیس کا ہے فرض ۔ مدد آپ کی

Police

Police

تحریر : رانا شاہد لطیف خاں

پی ٹی آئی کی حکومت کے برسرا قتدا رآنے کے نو ماہ کے دوران شیخوپورہ میں مسلسل چوتھے ڈی پی او کی تعیناتی عمل میں لائی جا چکی ہے ، حکومت کے ابتدائی ایام میں ڈاکٹر غیاث گل کی تعیناتی کی گئی جو تین ماہ کے بعد تبدیل کردیئے گئے ان کی جگہ جہانزیب نذیر خان کی تعیناتی عمل میں لائی گئی جن کا تبادلہ اڑھائی ماہ بعد کردیا گیااور ڈی پی او کی سیٹ عمران کشور نے سنبھالی جنہیں گزشتہ دنوں تبدیل کرکے غازی صلاح الدین سیالوی کو تعینات کیا گیا جنہوں نے اپنے عہدہ کا چارج سنبھال کر محکمانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی شروع کردی ہے دیکھنا یہ ہے کہ نو تعینات ڈی پی او غازی صلاح الدین سیالوی ضلع میں بڑھتی جرائم کی وارداتوں پر قابو پانے میں کس حد تک کامیاب ہو پائیں گے یا کہ شیخوپورہ کے باسیوں کوگزشتہ 9ماہ کی سی صورتحال کا سامنا رہے گاکیونکہ حقائق بلاشبہ خاصے تلخ ہیں اور پولیس کی کارکردگی بھی نا قابل بیان حد تک غیر موثر ہے جس پر شہریوں کے تحفظات اب تشویش کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔

ڈکیتی چوری راہزنی اور نقب زنی کی وارداتیں معمول بن چکی ہیں جبکہ ڈاکوئوں اور راہزنوں کی سفاکی کا عالم یہ ہے کہ حالیہ چند ماہ میں متعدد شہری ڈاکوئوں کے تشدد کا نشانہ بنے جن میں سے بعض افراد ڈاکوئوں کی فائرنگ کے باعث جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے لہذاٰ شہریوں کا خوف میں مبتلا ہونا منطقی امر ہے، اسی طرح متعدد شہری و نواحی بستیوں میں چرس افیون ہیروئن شراب ودیگر اقسام منشیات کی فروخت کھلے عام جاری ہے ، قحبہ خانوں کی تعداد بھی بڑھی ہے جس سے زناکاری کے رجحان کا بڑھنا منطقی ہے کیونکہ یہ ایسا جرم ہے جس میں کمی یا اضافہ فقط اس جرم کے مواقع میسر آنے یا ان مواقعوں کے محدود ہونے سے ہے لہذاٰ واضح ہے کہ پولیس کی عدم توجہی کے باعث نسل نو اس غلاظت کی زد میں ہے۔

پرچی جواء اور سنوکر کلبوں میں ہونے والی سٹے بازی سمیت میچز پر کھیلا جانیوالا جواء نہ صرف عروج پر ہے بلکہ روائتی جواء کے پرانے اڈے پھر سے بحال ہوچکے ہیں جو کم و بیش گزشتہ تین سال تک اس حد تک غیر فعال رہے کہ انکے دوبارہ آباد ہونے کی توقع نہیں کی جارہی تھی،نامعلوم نعشوں کے ملنے کے واقعات میں بھی گزشتہ سال کی نسبت اضافہ سامنے آیا ہے جبکہ ان نعشوں کی شناخت کی شرح مایوس کن ہونے کے باعث بھی پولیس کارکردگی سوالات کی زد میں ہے،اسی طرح اغواء کی وارداتوں اور زبردستی زیادتی کے کیسز بھی معمول سے بڑھ کر رونما ہوئے، سب سے بڑھ کر یہ کہ دیرینہ دشمنیوں کے باعث ہونے والے جھگڑوں میں ہوشربا اضافہ ہواہے جن کی وجوہات بھی خاصی توجہ طلب ہے واقفان حال کے مطابق گزشتہ 9ماہ میں ضلع پولیس کی طرف سے نہ تو دیرینہ دشمنیوں کے شکار خاندانوں میں صلح و آتشی کی خاطر کوئی نمایاں کوشش کی گئی نہ پرانے کیسز کے چالان مکمل کرکے ملزمان کو قرار واقعی سزا دلوائی گئی کہ عبرت پکڑی جاتی الٹا ملزمان کو فیور دینے کی شکایات ضرور سامنے آئیں جس سے فریقین کے حوصلوں کو تقویت ملی۔

پولیس کلچر کی بات کی جائے تو اس لحاظ سے نہایت مایوسی مقدر رہی اور تھانوں میں نہ صرف رشوت ستانی کو فروغ حاصل ہوا بلکہ پولیس کاروائیوں پر اٹھنے والے اعتراضات میں بھی اضافہ سامنے آیا خیال کیا جاتا رہا کہ پولیس محکمانہ امور کی انجام دہی کی بجائے جیب گرم کرنے والوں سے وفاداری نبھا رہی ہے جس سے بعض واقعات میں بے گناہ افراد کو بھی پولیس عتاب کا سامنا کرنا پڑا، پولیس ناکوں اور گشت کی صورتحال بھی قطعی اطمینان بخش ثابت نہ ہوسکی اورٰ پولیس پر بھتہ خوری کے الزامات تواتر سے لگتے آئے ہیںلہذاٰ اس صورتحال کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کیلئے اس بات پر غور کرنا لازم ہے کہ جن ملزمان کو پولیس نے کسی سبب گرفتار کیا انکے ساتھ کیا سلوک روا رکھا گیا تاکہ جزا وسزاء کا تعین ممکن ہوپاتا تو نہایت بدبختی ہے کہ متعدد ایسی مبینہ شکایات سامنے ہیں کہ جن سے واضح ہوتا ہے کہ پولیس نے پکڑے گئے ملزمان کو بھاری رشوت کے تحت نہایت ریلیف دیا اول تو جرم کے اعتبار سے مقدمات قائم کرنے کی بجائے انہیں رشوت خوری کے باعث چھوڑ دیا گیا یا بعض معمولی دفعات لگا کر خانہ پری کردی گئی جس کے باعث ملزمان کو باآسانی ضمانتیں میسر آئیں اور پھر سے انہیں اپنی مجرمانہ وارداتیں انجام دینے کا موقع میسر آیا، خصوصاً وہ ڈکیت گینگ جن پر ڈکیتی کی وارداتوں بلکہ مزاحمت پر شہریوںکو قتل اور زخمی کرنے کے الزامات تھے کی موثر تفتیش کی بجائے کمزور کیسز درج کئے گئے جن کا فائدہ اٹھا کر ان گینگ کے ارکان جلد ضمانتیں حاصل کرکے پہلے سے بڑھ کر سفاکانہ کاروائیوں میں مشغول ہوگئے۔

قارئین! ذرائع کے مذکورہ انکشافات نہ صرف پولیس کارکردگی کی کھلی وضاحت ہیں بلکہ معاشرتی ابتری اور شہریوں کے استحصال کی بھی کہانی بیان کررہے ہیں، محکمہ پولیس ایسے افسران و ملازمین کے قطعی خالی نہیں کہ جو بدترین حالات میں بھی امور ذمہ داری کی انجام دہی یقینی بنانے کے اہل ہیں مگر بدقسمتی سے ضلع شیخوپورہ گزشتہ 9ماہ سے ایسے حالات کا شکار ہے کہ عوام کا پولیس پر سے اعتماد خاصی حد تک اٹھ چکا ہے اورحالت یہ ہے کہ متاثرہ شہری اپنی شکایات جمع کروانے کیلئے تھانوں کارخ کرنے سے قاصر ہیں یقینا یہ نا امیدی ان بعض کرپٹ افسران و ملازمین کی پیدا کردہ ہے جن کی طمع نفسانی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی، ایسا نہیں کہ مقامی میڈیا نے اس صورتحال کو اب سے قبل بیان نہیں کیا بلکہ ہرگاہ کوشش کی گئی اور جرائم کی وارداتیں بھی روزانہ کی بنیاد پر شائع کی گئیں مگر کسی نے شاید کان نہیں دھرے۔

خصوصاً اہل صحافت اور پولیس میں پل کا کردار ادا کرنے والے پی آر او ٹو ڈی پی او کی کارکردگی سے لگتا ہے کہ اپنی ذمہ داری باخوبی انجام نہیں دے سکے جو کم و بیش 5سابق ڈی پی اوز کے ساتھ وقت گزار چکے ہیں، جن کی اہل صحافت سے شناسائی تو ہے مگر شائع شدہ رپورٹس کو ڈی پی او کے حضور پیش کرنا شاید انہیں گراں گزرتا ہے یا وہ بھی خوشامد پرستی میں مبتلا ہو کر رہ گئے ہیںاگر اصل حقائق افسران بالا تک جو ں تے توں پہنچ پاتے تو شاید آج حالات کچھ مختلف ہوتے مگر بد قسمتی سے ہر نئے آنے والے ڈی پی اوکو سب اچھا کی عینک پہنا دی جاتی ہے حقائق سے پردہ پانی سر سے گذرنے کے بعد لگتا ہے وگرنہ مقامی میڈیا کی رپورٹنگ پر کوئی تو ایسی کاروائی ہوتی کہ جس سے جرائم کی شرح کنٹرول کرنے میں مدد ملتی حالانکہ صحافی برادری کے نہ تو کسی سے کوئی ذاتی اختلاف ہیں نہ کسی سے کسی طرح کے ذاتی مراسم کہ جو اہل صحافت کو پولیس کارکردگی پر سوالات اٹھانے سے گریز برتنے پر مجبور کرتے الحمد اللہ ہم نے اپنے حصے کا کام کیا ہے اور کرتے رہیں گے۔

Rana Shahid

Rana Shahid

تحریر : رانا شاہد لطیف خاں