ممبئی حملے26/11، بالآخر سچ سامنے آگیا

Mumbai Attacks

Mumbai Attacks

ممبئی حملوں کو چھ سال گزرنے کے بعد بھی بھارت پاکستان کو لشکرطیبہ کے ملوث ہونے کے بارے میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کر سکا۔2008ء میں ممبئی میں ہونے والے حملوں کی ذمہ داری دکن مجاہدین نے قبول کی لیکن بھارت نے کہا تھا کہ اس میں لشکرطیبہ ملوث ہے ۔بھارت کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر پاکستانی حکومت نے 11دسمبر 2008ء کو امیر جماعة الدعوة پروفیسر حافظ محمد سعید اور ان کے پانچ ساتھیوں قاضی کاشف نیاز، یاسین بلوچ،مولانا امیر حمزہ اور عبدالرحمن رحمانی، کرنل (ر) نذیر احمد سمیت نظربند کر دیا۔ ان کا مقدمہ عدالت میں چلا۔

عدم ثبوت کی بنا پر لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر 8 مارچ 2009ء کو قاضی کاشف نیاز اور یاسین بلوچ جبکہ 5 مئی 2009ء کو مولانا امیر حمزہ اور عبدالرحمن رحمانی کو رہا کر دیا گیا۔ہائی کورٹ نے حافظ محمدسعید اور کرنل رنذیر احمد کو بھی ٹھوس ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے 2جون 2009ء کو رہا کر دیا۔ عدالتی فیصلہ میں لکھا گیا تھا کہ حافظ محمد سعید اور کرنل (ر) نذیر احمد کو کسی قانونی جواز کے بغیر نظر بند کیا گیا اور اس ضمن میں متعلقہ اتھارٹیز کوئی ٹھوس شواہد بھی پیش نہیں کرسکی ہیں۔ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف حکومت پاکستان نے سپریم کورٹ میں جولائی 2009ء میں رٹ دائر کی۔ کم وبیش ایک سال کے بعد سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی سامنے آگیا اور مئی 2010ء میںجماعت الدعوہ کے امیر حافظ محمد سعید کی رہائی کے خلاف دائر وفاق اور حکومت پنجاب کی درخواستیں خارج کر دیں گئیں۔

اپیل کی سماعت کرنے والے ایک جج جسٹس رحمت حسین کا کہنا تھا کہ حکومت ممبئی حملوں ،القاعدہ سے متعلق ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے عدم ثبوت پر حافظ سعید کو آزاد شہری قرار دے دیا۔ 2012ء میں بھارتی دانشور اور صحافی وی ٹی راج شیکر نے انکشاف کیا کہ ممبئی حملوں میں بھارت کی ایک انتہا پسند تنظیم ابھینو بھارت بھی ملوث تھی جس کے تمام ارکان مہاراشٹر کی ناسک جیل میں قید ہیں۔ وی ٹی راج شیکرنے لندن میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ابھینو بھارت نامی تنظیم سمجھوتا ایکسپریس سمیت کئی بم دھماکوں میں ملوث ہے اور ممبئی حملوں میں بھی وہی تنظیم ملوث ہے۔

بھارتی دانشور نے کہا کہ سمجھوتا ایکسپریس حملے کی نگرانی بھارتی فوج کے حاضرسروس لیفٹیننٹ جنرل سری کانت پروہت کر رہا تھا ۔گذشتہ سال بھارتی وزارت داخلہ کے سابق افسر آر وی ایس مانی نے بھی انکشاف کیا تھا کہ بھارتی حکومت نے خود ہی پارلیمنٹ ہاؤس اور ممبئی میں حملے کرائے۔ عدالت میں جمع کروائے گئے بیان حلفی میں سابق افسر نے کہا کہ سی بی آئی اور ایس آئی ٹی کی مشترکہ ٹیم کے رکن ستیش ورما نے انہیں بتایا کہ 2001 میں نئی دہلی میں پارلیمنٹ ہاؤس اور 2008 میں ممبئی میں ہونے والے حملے بھارتی حکومت کی سوچی سمجھی سازش کے تحت کئے گئے جس کا مقصد انسداد دہشتگردی کے قوانین میں ترامیم کرکے انہیں مزید سخت کرنا تھا۔

اب بھارتی مصنف سروج کماررتھ نے بھی اپنی کتاب میں ممبئی حملوں کے حوالے سے ناکافی ثبوتوں کا اعتراف کر لیا ہے۔ سروج کماررتھ نے “Frontier Fragile: The secret History of Terror Mumbai Attacks ” کے نام سے کتاب لکھی جس میں ممبئی حملوں کے حوالے سے بھارت کی چارج شیٹ کی قلعی کھول دی گئی ہے۔ بھارت نے کہا تھا کہ ممبئی حملوں کے پیچھے کشمیری جہادی تنظیم لشکر طیبہ کا ہاتھ ہے لیکن کتاب میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ممبئی حملوں کی گیارہ ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل چارج شیٹ میں صرف ایک پیراگراف میں لشکر طیبہ کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اس چارج شیٹ میں پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور پاک فوج کا ذکر تک نہیں۔ چارج شیٹ میں کئی کمیاں ہیں۔

Pakistan

Pakistan

جس سے کئی لوگوں کو مایوسی ہوئی۔ بھارت نے پاکستان کو ممبئی حملوں میں ملوث کرنے اور اس کے خلاف بین الاقوامی ٹریبونل میں کارروائی کے لئے سابق جاپانی جج شیکا کو تایاکی خدمات حاصل کی تھیں۔ جاپانی جج نے بھی چارج شیٹ کے بغور مطالعے کے سخت مایوسی کا اظہار کر دیا تھا۔جاپانی جج نے ممبئی حملے کے خصوصی پبلک پراسیکیوٹر اوجل نکم سے بھی ممبئی میں ملاقات کی ۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ بھارت کے سب سے اہم دہشت گردی کے مقدمے میں مشترکہ فوجداری انٹرپرائز کے حوالے سے کوئی ایک اشارہ بھی نہیں۔ جسٹس تایا نے نکم سے پوچھا کہ چارج شیٹ میں لشکرطیبہ کو مناسب طریقے سے نمٹا نہیں کیا گیا تو اس کا جواب یہ تھا کہ اسے مناسب طریقے سے نمٹا گیا ہے۔ اس پر جسٹس تایا نے کہا کہ پوری چارج شیٹ میں صرف ایک پیراگراف میں لشکرطیبہ کا ذکر ہے۔

نکم نے وضاحت کی کہ ایک فوجداری وکیل کے طور پر وہ اس کیس کی فوجداری کارروائی میں ماہر ہیں۔کتاب نے ممبئی حملوں کی تحقیقات کے حوالے سے کئی سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔ کیس کی چارج شیٹ بہت کمزور فائل کی گئی۔ ممبئی حملے کی چارج شیٹ میں 11280 صفحات تھے۔ چارج شیٹ 166 افراد کی پوسٹ مارٹم رپورٹ، 22 سو افراد کی گواہی، جائیداد کے نقصانات کی تفصیلات، دھماکوں اور فائرنگ کے بیلسٹک ثبوتوں اور دہشت گردوں کی طرف سے استعمال شدہ مواد پر مشتمل تھی۔کتاب میں لکھا گیا ہے کہ جب جاپانی جسٹس نے نکم سے حملوں میں آئی ایس آئی، پاک فوج اور لشکرطیبہ کے کردارکے حوالے سے سوالات کئے تو اس نے ان کا رخ موڑ دیا یا نفی میں جواب دیا۔ نکم نے کہا کہ وہ پاکستان کے دائرہ کار میں آنے والے معاملے کی تحقیقات کیسے کر سکتے ہیں۔

کتاب نے ممبئی کیس کے فیصلے کو یہ کہہ کر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے کہ یہ فیصلہ خوبصورت الفاظ اور استعاروں کا مجموعہ ہے جس میں مواد اور سچائی کی کمی ہے۔کتاب کے مطابق عدالت کی طرف سے لشکر طیبہ پر فرد جرم عائد کرنے لئے کچھ زیادہ ثبوت نہیں۔اس سے پہلے بھی بھارت خود مقبوضہ کشمیر اور دیگر صوبوں میں حملے اور قتل عام کر کے ا س کا الزام پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور لشکرطیبہ پر لگاتا رہا ہے۔ چھٹی پورہ سنگھ مقبوضہ کشمیرمیں ہونے والے قتل عام کا الزام لشکر طیبہ پر لگایا گیا لیکن تحقیقات سے پتہ چلا کہ بھارتی فوج اس میں ملوث ہے۔ 2004ء میں ایک بھارتی مسلمان طالبہ عشرت جہاں سمیت 4 مسلمان طلبہ کو جعلی پولیس مقابلے میںیہ کہہ کر شہید کر دیا گیا کہ ان کا تعلق لشکرطیبہ سے ہے۔

گجرات پولیس نے الزام عائد کیا تھا کہ یہ طلبہ و طالبات گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو قتل کرنے کے لیے آرہے تھے۔ 9 سال بعد یہ ثابت ہوا کہ عشرت جہاں بے گناہ تھی اور اسے جعلی پولیس مقابلے میں شہید کیا گیا تھا۔2007ء میں ہونے والے سمجھوتہ ایکسپریس دھماکے میں 68 پاکستانی مسافر شہید ہو گئے تھے۔ بھارتی حکومت نے حسب سابق اس دھماکے کو بھی آئی ایس آئی اور لشکرطیبہ کے کھاتے میں ڈال دیا لیکن بعد میں پتہ چلا کہ اس میں ایک بھارتی فوجی لیفٹیننٹ کرنل سری کانت پروہت ملوث ہے۔بھارتی مصنف کی طرف سے لکھی گئی کتاب کے بعد یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ بھارت کے پاس لشکرطیبہ کے حوالے سے کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اب پاکستان کو چاہیے کہ 2009ء سے قید ممبئی حملے میں ملوث7بے گناہ پاکستانیوں کو عدم ثبوت کی بنیاد پر باعزت بری کرے۔

Mohammad Rashid Tabassum

Mohammad Rashid Tabassum

تحریر: محمد راشد تبسم