تحریر : انجینئر افتخار چودھری ایک تو ہوتی ہے مخالفت برائے مخالفت اور دوسری چیز ہوتی ہے حقائق سے پردہ اٹھانا۔پی ٹی آئی کے ایک ذمہ دار ہونے کی حیثیت سے میری کوشش ہوتی ہے کہ بغیر کسی وجہ کے حکومتی اقدامات پر تنقید نہ کروںبعض اوقات سچائی سے منہ موڑنا پڑ جاتا ہے اس لئے کہ لوگ سمجھیں گے کہ پی ٹی آئی تنقید برائے تنقید کرتی ہے۔آج میں نے اپنے اندر سے پی ٹی آئی نکالی ہے۔ لیکن ایک کالم نگار کی حیثیت سے مجھے آج کچھ کہنا ہے۔میں کل ہی برادر جہانزیب منہاس جو مدینہ منورہ سے سالانہ چھٹی پر آئے ہیںکے ساتھ ایبٹ آباد اور ہریپور کے ایک روزہ دورہ سے واپس لوٹا ہوں۔جہانزیب ایک اچھا صحافی اور تنقید نگار بھی ہے۔اس دورا ن ہم نے صبح سے لے کر رات گئے تک ان سنسان راہوں پر بھی سفر کیا جن پر برس ہا برد پہلے کوئی دن کے اجالے میں بھی سفر کرنے کا تصور نہیں کرسکتا تھا۔شاہ مقصود اور لورہ روڈ پر سفر کرنے والے جانتے ہیں کہ وہ دن کتنے خطر ناک تھے جب سر شام ہی لوگ گھرون میں جا بیٹھتے تھے۔اس سنسان روڈ پر ہم رات بھر سفر کرتے رہے ہرو پل پر رکے۔نلہ گائوں میں پہنچے وہاں برادر نثار سے جہانزیب ہی نے سوال کیا کہ بجلی کا کیا حال احوال ہے انہوں نے بتایا کبھی کم کبھی زیادہ مگر آج کل دن میں صرف دو گھنٹوں کے لئے جاتی ہے۔ہو سکتا ہے کے پی کے کہ دیگر علاقوں میں ایسی صورت حال نہ ہو مگر اس گائوں کی تازہ ترین صورت حال یہ تھی۔ جھاری کس سے ایبٹ آباد تک سیی این جی وافر موجود تھی۔شہروں میں ٹریفک کا انتظام بہترین تھا۔نثار نے یہ بھی بتایا کہ کہ گزشتہ ماہ کے پہلے ہفتے میں کے پی کے پولیس نے گائوں میں چھاپہ مارا ان کے ہمراہ رینجر بھی تھی خاتون اہل کار بھی ساتھ تھی گھر گھر کی تلاشی لی ناجائز اسلحہ بر آمد کیا لائسنس دار کو چیک کیا اور کہا کہ ہم پھر بھی آئیں گے۔یہ وہ چھاپہ تھا جو رینجرز کراچی میں مارتی ہے تو شور مچ جاتا ہے۔یہاں خوش اسلوبی سے ہوا۔
قارئین مجھے آج اس پنجاب کی بات کرنی ہے جس میں رہتا ہوں مجھے پاکستان کے کونے کونے سے اتنا ہی پیار ہے جتنا اپنے گائوں سے ہے۔میں آج کل راولپنڈی کے اس علاقے میں رہتا ہوں جسے عرف عام میںپوش علاقہ بھی کہا جا سکتا ہے۔بے نظیر انٹر نیشنل ایئر پورٹ سے صرف تین کلو میٹر پر یہ علاقہ ہر لحاظ سے حساس بھی ہے اور اہم بھی۔نام ہے اس کا ایئر پورٹ سوسائٹی۔گزشتہ برسوں میں یہاں کی صورت حال دگرگوں تو تھی ہے۔ہم سمجھتے تھے کہ شہر کے ایک بڑے قبضہ مافیہ کی وجہ سے یہاں چوری اور ڈاکے ہو رہے ہیں لیکن چند ماہ سے وہ مافیہ تو جیلوں میں ہے۔گرچہ سر عام غنڈہ گردی کا خاتمہ ہو گیا ہے سوائے اکا دکا واقعات کے،البتہ گاڑی چوری کی وارداتیں بڑے پیمانے پر ہو رہی ہیں۔حیران کن بات کہ گلزار قائد پولیس پوسٹ بننے سے پہلے یہاں چوریاں کم ہوتی تھیں اب شائد ہی کوئی دن ہو گا جب یہ خبر نہ سنی ہو کہ فلاں کی گاڑی فلاں کے ہاں نقدی زیورات چوری نہ ہوئے ہوں۔
اس میں کوئی شک نہیں بے روزگاری اور معاشرتی انحطاط کی وجہ سے سب کچھ ہو رہا ہے،لیکن سوال پیدا ہوتا ہے یہ انحطاط اس سوسائٹی میں ہی کیوں اپنے بد ترین اثرات دکھا رہا ہے۔اس روز سوسائٹی کے ڈاکٹر صاحب نے بھی رات کو کلینک نہ کھولنے کی وجہ یہی بتائی کہ دو بار وہ ڈاکوء وں کے ہاتھوں لٹ چکے ہیں۔نہ مسیحا بچتا ہے نہ اس کا مریض۔مجھے کہنے دیجئے کہ یہ کہانی پنجاب کے گھر گھر کی ہے ادھر گجرانوالہ گیا تو یہی باتیں یہی داستانیں۔وہاں اگر امن ہوا تو ایک پولیس آفیسر کے آنے سے ہوئا جسے بعد میں کھڈے لائن لگا دیا گیا۔آج دوپہر کو خاتون خانہ نوکرانی کے ساتھ سبزی لینے گئیں اور گھر کے سامنے سے ہمشیرہ صاحبہ ڈاکٹر کے پاس گئیں تو ٹھیک بارہ بج کر پینتالیس منٹ پر دو موٹر سائیکل سوار ڈاکوئوں نے ہمشیرہ محترمہ کو پستول کی نوک پر لے لیا ان کے منہ پر ہاتھ رکھا اور تیز دار آلے کی مدد دے ان کے بازئوں سے وہ کنگن اتروا لئے جو انہوں نے اس حج پر جدہ سے خریدے تھے۔
Police
حالت یہ ہے کہ اس موقع پر چند قدم دور بیگم اور نوکرانی چور چور کا شور مچاتی رہیں اور پاس ہی گھر کی گھنٹی بجائی مگر ایک بزرگ نے جانتے بوجھتے دروازہ نہیں کھولا۔یہ سب کیا ہے؟کیا ہم اس پر ایک مسلہ ء فیثا غورس کھول دیں۔اصل میں سزا اور جزا کا کوئی نظام ہی نہیں ہے۔پولیس کے پاس گیا تو ان کی داستان غم سنی تو دل کیا کہ کاش میرے پاس اضافی رقم ہو تو ان کو اضافی عملہ اچھی گاڑی پٹرول ڈیزل اور دفتری اخراجات کے لئے کچھ رقم دے آئوں۔مجھے اس نوجوان پولیس آفیسر کو سراہنا ہے جو ہمارے ساتھ آیا جائے واردات کا معائینہ کیا پوچھ گچھ کی۔لیکن میں اب اس وزیر اعلی سے بات کرنا چاہوں گا جو مجھے اچھی طرح جانتے ہیں جدہ کے قیام کے دوران ان کے اچھے عزائم سے واقفیت رہی ان کے جذبات سے آگہی رہی۔وہ وہاں پنجاب کے لوگوں کے دکھوں کے اوپر رویا کرتے تھے ایک دن ایک بچی کی خبر چلی کہ اس نے محمد ابن قاسم کی طرح مشکل کے وقتشہباز شریف کو پکارا تھا میاں صاحب نے نوائے وقت کی خبر پر ایکشن لیا اپنا نمائیندہ وہاں بھیجا رقم وغیرہ دی اور اس بچی کی داد رسی کی۔میاں صاحب بھی وہی ہیں ان کے جذبات بھی وہی۔
میں صرف ان سے پوچھنا چاہتا ہوں آج انجینئر افتخار چودھری بھی چیخ چیخ کر آپ کو بلا رہا ہے یہ وہی افتخار چودھری ہے جو آپ کے والد صاحب کی وفات کی خبر سن کر پنڈی سے کدہ پہنچا پھر آپ ہی کی وجہ سے جنرل اسد درانی کی ستم ظریفیوں کی نظر ہوا جسے آپ اور بڑے میاں فون کر کے سراہتے رہے۔ میاں صاحب خدا را خدا را اس افتخار اور پنجاب کے آٹھ کروڑ افتخاروں کی مدد کو پہنچیں حد ہوتی ہے پانچ ماہ پہلے میرے گھر سے میرے بیٹے نوید افتخار کی نئی گاڑی چوری ہوئی تو برادر سعید الہی کی مہربانی سے رپورٹ درج ہوئی آر پی او سے ملا تو دل دہل گیا کہ میرے شہر کے محافظ جو حالت زار بیان کر رہے ہیں بہتر ہے چوروں سے مک مکا کر لیں۔ہم نے اس کیس کو اللہ پر چھوڑا گاڑی انشورد تھی پیسے مل گئے۔لیکن حضور والا بات یہیں ختم نہیں ہوتی جس دن استعمال شدہ گاڑی لی اسی دن چور صاحب پھر آئے اللہ کا کرنا تھا گاڑی خراب ہونے کی وجہ سے صرف تالا توڑنے پر کاتفا ہوا۔آج دوپہر کو دن دیہاڑے میری ہمشیرہ کی کنپٹی پر پستول رکھ کر ان سے کنگن اتروا لیئے گئے۔یہ ایئر پورٹ سوسائٹی کے ہر گھر کی کہانی ہے اس حلقے سے وزیر داخلہ منتحب ہوئے ہیں سرفراز افضل اور سینیٹر تنویر چودھری کا ایریا ہے۔
جناب آپ پنجاب بدلنے نکلے ہیں۔خدا کے لئے میاں صاحب جب ہم پر ذمہ داری تھی ہم نے جمہوریت کے لئے ماں تک قربان کر دیوہ ماں جس سے مریم بیٹی فون کر کے اپنے محبوس ابا کے لئے دعائیں کروایا کرتی تھیں۔آج سوال اس کا نہیں کہ میں اپنی قربانیوں کا ذکر کرے آپ سے کچھ مانگوں۔مجھے آج بڑے میاں صاحب سے بھی پوچھنا ہے جنہوں نے مجھے پیغام بھیجا تھا چودھری صاحب آپ کدھر ہیں بتائیں میں آپ کی کیا کدمت کروں۔جی میاں صاحب آپ یہ خدمت کر سکتے ہیں خدا را اپنی اس ظالمانہ اور جابرانہ طرز حکومت کو ترک کر دیں۔یہ ملک آپ سے نہیں چلتا اسے نہ میاں شہباز شریف کا سٹائیل چلا سکتا ہے نہ آپ کا میرے وہ بچے جو جدہ میں جنرل اسد درانی کے ظلم کا شکار ہوئے ان میں سے ایک ڈاکتر بنایا ڈینٹسٹ گریڈ سترہ کے ملازم نے پنجاب کے دور دراز علاقے میں تین سال تک خدمات انجام دیں اور بعد میں اس نوجوان کو اس لئے فارغ کر دیا کہ یہ آسامی اب گریڈ اٹھارہ کے لئے ہے۔نہ کوئی گریڈ اٹھارہ کا ڈاکتر وہاں گیا اس سے کیا ہوا جس نوجوان کو میں نے کہا تھا کہ عوام کی خدمت بے لوث ہو کر کرنا حرام نہ کھانا وہ آج جاب لیس بیٹھا ہوا ہے۔یہ ہہیں بدلتے پنجاب کے رنگ۔بہنیں سڑکوں کے اوپر گہنے گنوا رہی ہیں بچے فارغ گھروں میں بیٹھے اللہ اللہ کر رہے ہیں۔
Pakistan
دکھ تو اس بات کا ہے کہ جنرل درانی جیسے لوگ مزے کر رہے ہیں اور وہ جو مارے گئے جنہوں نے جیلیں کاٹی ان پر مزید ظل کئے جا رہے ہیں ۔کیا کبھی آپ نے اس نعیم بت کا پوچھا شہباز دین بٹ امجد خواجہ ڈاکٹر قسیم آفتاب مرزا عظمت نیازی انجینئر افتخار چودھری جن سے آپ کے گھرانے کے لوگ وعدے عید کرتے رہے۔ہمیں خدا کے لئے کچھ نہ دیں لیکن ایک چیز ضرور مانگنی ہے آپ سے کہ ہمیں امن سکون سے رہنے دیں۔یہ آپ کا بدلتا ہوا پنجاب ہماری سانسیں اکھیڑ رہا ہے۔آگ لگے آپ کی میٹرو کو جو مائوں بہنوں کی عزتوں سے صرف نظر کر کے آپ بنا رہے ہیں۔کیا ہو رہا ہے پنجاب میں۔آج میرا ایک ملازم بتا رہا تھا کہ ہماری گندم اتنی ہوئی جو ہم صرف سال بھر کھا سکتے ہیں اس کا رونا تھا کہ کھاد ڈیزل اور بجلی کی مہنگائی سے مشکل سے خرچے پورے ہوتے ہیں۔
میں نے جد وجہد کا راستہ اپنایا ہے اپنے دیگر دوستوں کی طرح میں بھی اسمبلی میں ہوتا اور نہ سہی صدیق الفاروق اور سعید الہی رو ء ف طاہر عطاالحق قاسمی کی طرح کسی کارپوریشن کو سنبھال لیتا مگر اس ملک کی قسمت بدلنے میں میرا کیا حصہ ہوتا۔مجھے ٢٠٠٧ میں عدلیہ بحالی کے دوران کئے گئے فیصلے پر آج بھی فخر ہے۔بات لمبی ہو گئی ہے لیکن آ خر میں ایک مشورہ ضرور دوں گا اسے اپنی انا کا سوال نہ بنا لینا میاں صاحب آپ عمران خان سے کے پی کے پولیس کا چیف صرف چھ ماہ کے لئے ادھار مانگ لیں۔اگر ایسا نہ کیا تو یاد رکھیں کہ بدلتا ہوا پنجاب صومالیہ اور جیبوتی نائجیریاجنوبی سوڈان بن جائے گا۔
قسمتیں بدلنے کے لئے نیتوں کا صاف ہونا شرط ہے اور اوپر والوں کی نیتیں ٹھیک ہوں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ پنجاب کے آٹھ کروڑ لوگوں کے جان و مال اس قدر خطرے میں ہوں جس طرح ایئر پورٹ سوسائٹی کے لوگوں کے ہیں۔کیا پنجاب کی اس بیٹی کی طرح پھر کوئی چیخے گا کہ شہباز شریف آئو اور میری جان بچائو،آواز تو آپ کو سرور پیلیس میں بھی اچھی لگی تھی لیکن اس بار اللہ نہ کرے پھر کوئی بوٹ والا آیا تو نہ سرور پیلیس ہو گا نہ کوئی قاری شکیل ارشد خان اور انجینئر افتخار چودھری۔ہزار مخالفت کے باوجود MARTIAL LAW AT MY DEAD BODY بس آپ بدلتے پنجاب کے رنگ KPKکے رنگوں سے ملا کر دیکھیں۔شاہ مقصود لورہ روڈ کی پر امن فضائیں ایئر پورٹ سوسائٹی میں لائیں۔