کسی بھی معاشرے میں نظم و ضبط اور لا اینڈ آرڈر کی صورتحال کو کنٹرول کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے تو جہاں پولیس کو عوام کی جان و مال کے تحفظ کیلئے استعمال کیا جاتا ہے وہیں دوسری جانب اسی پولیس سے اگر غلط کام کروائے جائیں تو پھر معاشرے میں ایسا بگاڑ پیدا ہوتا ہے جسے کنٹرول کرنا حکومت وقت کے بس کی بات نہیں رہ جاتی۔ کون نہیں جانتا کہ گزشتہ دنوںلاہور میں پولیس کی بدترین کارکردگی کا عملی مظاہرہ دیکھنے میں آیا جہاں نہتے اور بیگناہ شہریوں پر ظلم و ستم کے نہ صرف پہاڑ ٹوٹے بلکہ پولیس ملازمین نے سیدھے فائر کرکے شہریوں کو ہلاک بھی کیا۔
اگر ہم حالات کا با خوبی جائزہ لیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ پنجاب پولیس ایک فورس کا نام ہے اور فورس کو کمانڈ کرنیوالے افسران اے ایس آئی سے لیکر آئی جی تک ہیں اور پھر محکمہ قانون اور حکومت بھی اپنے احکامات جاری کرتی ہے۔پنجاب پولیس کے متعلق تو بیشمار کہاوتیں موجود ہیں کہ انکی مار سے ہاتھی بھی بکری بننے کی گواہی دیتا ہے۔پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ اپنی بھاری بھر کم موچھوں کی بدولت خاصے مقبول ہیں ۔اور جب کمانڈ انکے ہاتھ میں ہو تو پھر ہماری بہادر پولیس سے کیا توقع نہیں کی جا سکتی۔
انہیں تو ایس ایس پی کوئی آرڈر دے تو یہ پھولے نہیں سماتے اور اگر کوئی آرڈر موصوف وزیر قانون رانا ثناء اللہ دیں تو کس کی مجال کے وہ انکی حکم عدولی کرے ۔پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی پاکستان آمد پر انہیں مزہ چکھانے کا عظیم کارنامہ بھی بیچاری پنجاب پولیس سے لیا گیا۔اورکون نہیں جانتا کہ انہیں کس نے استعمال کیا مگر پھر بھی معصوم حکومت کے سربراہ نے کہا کہ ہمیں تو پتہ نہ چلا میرا مقصد پولیس کی تعریف یا انکے ہاتھوں شکار ہونیوالوں کی دل آزاری نہیں بلکہ انہیں استعمال کرنے والوںکا چہرہ دکھانا ہے پولیس فورس میں شامل شہری بھی ہمارے عزیز رشتہ ،بھائی ،بیٹے اور بزرگ ہوتے ہیں۔
چوبیس گھنٹوں کی ڈیوٹی افسران کی ڈانٹ ڈپٹ اور گھر والوں کی ٹینشنوں نے اکثر پولیس ملازمین کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔کیونکہ گھر اور باہر کا تمام نزلہ ان پر گرتا ہے ۔گھریلو مسائل ہوں یا باہر کوئی وقوعہ ،دہشت گردی کا مسئلہ ہو یا مساجد کی سکیورٹی،چرچوں کی دیکھ بھال ہو یا افسران کا پروٹو کول ،عوامی خدمتگاروں کے دورے ہوں یا عید شب برات کے تہوار یہی پولیس جوان ہر کام میں پھنسے نظر آتے ہیں ۔تھانوں کی حالت زار دیکھیں یا ملازمین کی پھٹی پرانی وردیاں،گشت پر معمور گاڑیاں ہو ں یا پیدل چلتے یہ جوان عجیب سی ہمدردی کے مستحق ضرور ٹھہرتے ہیں۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پولیس فورس ہر ڈیوٹی کو عبادت سمجھ کر سر انجام دیتی ہے۔کبھی تو انہیں عادی جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں کی بدترین کاروائیوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ کئی ایک کو جام شہادت کا رتبہ بھی نصیب ہوتاہے تو بعض بیچارے پولیس ملازمین غازی بھی ٹھہرتے ہیں۔
Punjab Police
سانحہ لاہور جہاں بربریت اور انسانی تذلیل کی بدترین مثال بن چکا ہے وہیں پر یہ بھی سوچنا چاہیے کہ پولیس جوانوں کو اپنے ہی ملک اور شہر میں نہتے شہریوں پر ظلم و ستم کرنے کے احکامات کس نے صادر کیے۔ کیونکہ یہ بھی تو اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور وہاں پر شہید ہونیوالے شہر یوں کے عزیز ،رشتہ دار، بیٹے، بزرگ بھی تو محکمہ پولیس میںموجو د ہیں۔کیا اگر کسی بیٹے کو یہ کہا جائے کہ اپنے باپ پر فائرنگ کرکے اسے ہلاک کر دو ،اپنی بہن کو گولیوں سے چھلنی کر دو تو یقینا یہ کام آسان نہیں ہوتا مگر افسران بالا کے احکامات ہوں اور کوئی پاور فل شخص ٹی وی پر آپ کی تمام تر کارکردگی کو مانیٹر کر رہا ہو اور بعض شر پسند عناصر کو پولیس کی آڑ میں گلو بٹ بنا کر حالات خراب کرنے کیلئے بھجوا دیا جائے یا چند ایک لوگوں کیوجہ سے پورے ڈیپارٹمنٹ یا فورس کا امیج تباہ کر دیا جائے تواس میں قصور کس کاتلاش کیا جائے۔
کاش ہماری یہ بیچاری پولیس نہتے شہریوں پر ظلم و ستم کرنے کے آرڈر نہ مانتی ،فائرنگ اور لاٹھی چارج کرکے معصوم شہریوں کا قتل عام نہ کیا جاتا ،عدلیہ بچاؤ تحریک میں جس طرح اپنی وردیاں اور بیلٹ اتار کر پھینک دیے گئے تھے اسی تسلسل کو اگر سانحہ ماڈل ٹاؤن میں دہرا دیا جاتا اور جابر حکمرانوں اور افسران کیخلاف علم بغاوت بلند کیا جاتا تو آج ہر شہری پولیس زندہ باد کے نعرے لگا رہا ہوتا۔
دہشت گردی اور بدامنی کرنیوالوں کو پروٹوکول نہ دیا جاتا، پولیس ، افواج اور سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے والوں کیخلا ف میرٹ پر کاروائیاںہوتیں ،نہتے اور مظلوم شہریوں کی جان و مال کا تحفظ کیا جاتا ، قانون کی حکمرانی ہوتی ،طاقتور اور مظلوم کیلئے ایک ہی قانون ہوتا توپھر کوئی بھی شہری پولیس گردی کا رونا نہ روتا بلکہ ہر شخص کی زبان پر یہی الفاظ ہوتے کہ بیچاری ہماری پولیس پر رحم کھاؤ۔انہیں اپنے مفادات کیلئے استعمال نہ کرو انہیں شہریوں کے جان و مال کی حفاظت ،مظلوموں کی داد رسی کیلئے رہنے دو۔کیونکہ یہ لوگ بھی ہم سے اور ہم ان سے ہیں۔کیونکہ یہ ہے ہماری بیچاری پولیس۔