تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری کوئی مانے یا مانے بہر حال خیبر پختونخواہ کے محکمہ پولیس میں بہتر اور موثر اصلاحات نافذ کی جاری ہیں سچ کو آنچ نہیں کی طرح ان کی تعریف کیے بغیر چارہ نہیں گذشتہ دنوں کوہاٹ میں پولیس دربار کا انعقاد کیا گیا جس میں کڑک اور ہنگو کے بھی پولیس افسران اور جوان شریک ہوئے جہاں آئی جی نے انکشاف کیا کہ کوہاٹ ڈویژن میں Police Access Service(PAS) کا نظام نافذ کیا جا رہا ہے جس کے تحت شکایت کنندہ جب ایس ایچ او تک اپنی تکلیف بیان کرے گایا درخواست دے گا تو آٹو میٹک کمپیوٹرائزڈ طریقہ سے یہ اطلاع ڈی پی اور اور متعلقہ آر پی او تک بھی پہنچ جائے گی اور اس فرد کو مختلف افسران کے پاس دیگر جگہوں پر گھوم پھر کر شکایت درج نہیں کروانا پڑے گی۔ڈی پی او اور آر پی او دفاتر میں فوری اس درخواست غور و غوض شروع ہوجائے گا ور جلد از جلد اس کی تکالیف کا ازالہ ہوسکے گا۔اورروزانہ کی بنیاد پراس کے کام/شکایت کی رپورٹس تیار کی جائیں گی ایسا نظام صوبہ کے دیگر ڈویژنوں میں بھی چندہفتوں میں رائج ہوجائے گا۔
آئی جی نے دہشت گردوں کے خلاف پولیس کاروائیوں میں جوانوں اور افسروں کی شہادتوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ ہر شہید کے گھر والوں سے متعلقہ ایس ایچ اواور ڈی ایس پی مکمل رابطہ رکھیں گے اور روزانہ کی بنیاد پر ان کے مسائل حل کرنے اور ان کی تکالیف دور کرنے کے لیے موثر اقدامات کیے جاتے رہیں گے۔پہلے تولو پھر بولو کے محاورہ کے مطابق پہلے ہر مسئلہ پر اچھی طرح غور و غوض کے بعد اس پر اپنی رائے دینا چاہیے وگرنہ منہ سے ایسی باتیں نکل جاتی ہیں جو شرمندگی کا باعث بنتی ہیں اور لوگ بھی اسے سخت ناپسندیدگی کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔عمران خان خسوصی طور پر اس مرض کا شکار ہیں جب ان کی اچھی بھلی ریپوٹیشن بن جاتی ہے تو ایک ہی جھٹکا میںسب کیا دھرا رہ جاتا ہے ایسی زبا ن استعمال کرتے ہیںکہ متعلقہ شخص کے دل میں بنا ہوا تاج محل یکدم زمین بوس ہو جاتا ہے۔ان کی لا اُبالی انداز میں تنقید مغلظات کے قریب پہنچ جاتی ہے۔
انھیں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بھی گذشتہ دنوں ایسی ہی نصیحت کی تھی مگر میں نہ مانوں کی طرح ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ۔پچھلے دنوں دس ارب روپے انہوں نے رشوت پیش کرنے کا حکومت پر الزام لگا دیاساتھ ہی ان کا یہ فرمانا کہ مجھے دس ارب روپے کی آفر ہوئی ہے تو پانامہ لیکس کا مقدمہ سننے والے ججوں کو کتنی کتنی رقوم پیش کی گئی ہوں گی ہو سکتا ہے کہ معاملہ کی تہہ میں کچھ کا لا کالا ہو بھی سہی مگر بغیر ثبوت تو الزام ہی کہلائے گا۔ان کی سخت زبان کا جواب دینے کے لیے لیگی وزراء بھی کسی سے کم نہیں ۔اور زرداری اینڈ کو کے تو کیا ہی کہنے وہ تو دور کی کوڑی ایسے لے آتے ہیں جیسے یہ معاملہ انہی کے ساتھ ہی پیش آگیا ہو۔کے پی کے کی حکومت کوئی اچھا کام کرکے اچھی ریپو ٹیشن کماتی ہے تو ایک ہی جھٹکے میں عمران خان کا اونچی پرواز کرتاجہاز زمین کی طرف غوطے لگانے شروع کردیتا ہے یہ بات ضمنناً کالم میں آگئی ہے وگرنہ کے پی کی پولیس کے نظام کی درستگی کے لیے کی گئی اصلاحات کو پورے پاکستان میں نافذ کیا جانا چاہیے۔آئی جی نے یہ بھی کہا کہ اب پوسٹنگ ٹرانسفر اور پروموشن بھی قطعی طور پر میرٹ پر کی جائیں گی پہلے ہی حکمرانوں نے پولیس کو سیاسی اثر رسوخ سے مکمل پاک کرنے کا عہد کر رکھا ہے کیا واقعی حکمرانوں وزراء اور ممبران اسمبلی کی سفارشیں رد کردی جاتی ہیں ؟بلوچستان میں تو راء کے مذموم جال بچھ جانے کی وجہ سے ہر وقت صوبہ دھماکوں اور خود کش حملوں کی زد میں رہتا ہے پولیس لاکھ کہیں کہ ہے مگر نہیں ہے۔
سندھ کے تو آئی جی نے عدالت میں گذشتہ دنوں حکمرانوں کی حرکتوں سے تنگ کر کہہ ڈالاکہ میرا صوبائی حکمرانوں نے ناطقہ بند کر رکھا ہے مجھے مرکز میں بھجوا دیا جائے۔جب صوبہ کے آئی جی ایسے خیالات اور اپنی بے بسی کا اظہار کریں گے تو چوروں ،ڈاکوئوں ، بھتہ خوروں اور اغوا برائے تاوان کے مجرموں کو شہہ ملے گی وہ زیادہ “دلیری” سے وارداتیں کریں گے ۔بھٹو دور میں حروں کی ضمانتیں لینے پر سیشن جج سانگھڑ کو گرفتار کر لیا گیا تھاا نہیں بیٹھے بٹھائے جیل کی ہوا کھانی پڑی تھی اور یہ واقعہ بھٹو دور کے ایک سیاہ ” کارنامے” کے طور پر آج تک یاد ہے ۔ ابھی گذشتہ دنوں سیاسی طور پر بااثر ایک ظالم بدقماش وڈیرہ تھانہ میںپہنچ کر ایس ایچ او کی کرسی پر چڑھ کر حکم چلانے لگا اور ٹی وی پر ایس ایچ او دور ہاتھ جوڑے کھڑا نظر آیاسپریم کورٹ کے ازخود نوٹس لینے پر بھی غنڈہ وڈیرہ ابھی تک گرفتار نہ کیا جاسکا ہے جو کہ پولیس کی ناکامیوں کا واضح ثبوت ہے ویسے بھی اندرون سندھ پی پی پی نے اور کراچی میں ایم کیو ایم نے اپنے متشددساتھیوں کو دھونس دھاندلی سے بھرتی کر رکھا ہے جو آئی جی کی نہیں بلکہ متعلقہ سیاسی عناصر کا ہی کہا مانتے ہیں اور پنجاب کے تو کیا ہی کہنے مصطفیٰ کھر بطورگورنر ایس ایچ او کو ڈائریکٹ فون پر ہدایت دیتے تھے اور فون پر پٹنے والے طلباء راہنمائوں اور اپوزیشنی لیڈروں کی چیخ و پکار سنا کرتے تھے۔ڈاکٹر نذیر شہید ،خواجہ رفیق شہیداور1971 میںبنگلہ دیش نا منظور تحریک کے دوران ڈائریکٹ گولی سے ہٹ کیے جانے والے حنیف برکت کے قتل آج تک ان کے ماتھے کا سیاہ داغ ہیں۔
00 9چوہے کھا کر بلی حج کو چلی اب یہ صاحب تحریک انصاف میں گھس کر وہاں انصاف کی عدالت لگائیں گے؟شریفوں کا پنجاب میں تازہ کارنامہ ڈی پی او ضلع بہاولنگر شارق کمال صدیقی کی ایک وڈیرے ن لیگی ایم این کی حکم عدولی پر صوبہ بدری ہے ایسے واقعات نے پنجاب پولیس کا مورال بہت ڈائون کر رکھا ہے حکمران ہوش کے ناخن لیں کہ کل کلاں ان کے ساتھ بھی یہی پولیس ایسا ہی سلوک کرے گی ۔پنجاب میں تو حکمرانی ہی پولیس کے ڈنڈے سے چلی رہی ہے متعلقہ وزراء اور ممبران اسمبلی نے پولیس کی باگیں اپنے ہاتھ میں لے رکھی ہیں اور پولیس ان کے اشاروں پر بے لگام گھوڑوں کی طرح سر پٹ دوڑتی چلی جارہی ہے۔وما علینا الا البلاغ۔