محترم قارئین! آجکل کے حالات کے پیش نظر ہمارے معاشرے کا ہر فرد پریشانی کے عالم میں ہے ۔ خوف اور غربت کی وجہ سے گھٹن کا سماں ہے۔ ہو شرباء مہنگائی نے سب کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔ غریب عوام کی اکثریت کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہو ئے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ دیکھنے کو آرہی ہے کہ ہمارے ہاں امیر، امیر تر ہو تا جا رہا ہے اور غریب، غریب تر۔
لوگ کسمپرسی کے عالم میں اپنا گزر بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ غریب کو اپنی حالت میں بہتری کی کوئی راہ بھی دیکھائی نہیں دے رہی۔ جرا ئم اس قدر عام ہو گئے ہیں۔ کہ سڑکیں، گلیاں ،محلے بھی اب تو محفوظ نہیں رہے۔ پہلے تو کہا جاتا تھا کہ فلاں جگہ سنسان ہے اس لئے وہاں سے بچ کے گزرنا کوئی چور ڈکیت ڈیرہ ڈال کے نہ بیٹھا ہو۔ جبکہ اب حالات بہت مختلف ہو تے جا رہے ہیں۔ اب تو گھروں میں بھی کوئی خود کو محفوظ نہیں محسوس کرتا۔
جب بھی کوئی عوام کو نقصان ہوتا ہے تو اس پر عوام حکومتوں کو اس کا مجرم ٹھہراتی ہے۔ جبکہ عوام یہ نہیں سو چتی کہ اس تمام تر نقصان کا ذمہ دارحکومت نہیں کو ئی اورہے؟ قارئین میں معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ اس کے ذمہ دار ہم عوام خود ہیں۔ کیو نکہ چند مفاد پرستوں کی وجہ سے ہم پس رہے ہیں۔ ان کے کہنے پر ہم ووٹ ڈالتے ہیں ان کے کہنے پر اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ اور ہم ہی ان کو سپورٹ بھی کر تے ہیں۔ ان کی حوصلہ افزائی کر تے ہیں۔
جس علا قے میں بھی نظر دوڑائی جا ئے وہاں مفاد پر ست ٹولہ آپ کو سر گرم نظر آئے گا۔ کو ئی سیاسی حلیے میں تو کوئی صحافتی حلیے میں عوام کو اپنی ہمدردیاں جتاتے ہوئے اپنا مفاد حاصل کر نے میں مصروف عمل ہے۔ اور جس کا سب سے بڑا نقصان عوام کو یہ ہو رہا ہے کہ ان کو ان کا حق نہیں مل رہا۔ اور نہ مفاد پرست ٹولے یہ چاہیں گے کہ عوام کو ان کا حق مل سکے اگر عوام کو ان کا حق ملنا شروع ہو جا ئے تو مفاد پرستوں کی کھاج مرتی ہے اور ان کی کھڑپینچی جاتی ہے۔
ہمارے تھانے کچہری بھی ان چند ضمیر فروشوں کی سرپرستی میں چل رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے مفادات کی خاطر عوام کو تو یر غمال بنا لیتے ہیں اور اپنی کھڑپینچی کو بھی بر قرار رکھتے ہیںمگر عوام ذلیل و خوار ہو جاتی ہے۔ اگر عوام ان کو نظر انداز کرے گی اور اپنے حق کی جنگ خود لڑے گی تو اس سے عوام کے مسائل میں کمی دیکھنے کو ملے گی یہ کام چند لوگوں کے کرنے کا نہیں یہ اجتماعی عمل ہے جس سے ان تما م ضمیر فروش عناصر کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ جب تک ہم تمام مل کر ان کے عزائم کو خاک میں نہیں ملائیں گے تب تک کو ئی فرق دیکھنے کو نہیں ملے گا۔
Bribery
ایک سادہ سی مثال دیتا چلوں اپنی عوام کو کہ جب ہم پر کوئی ظلم یا زیادتی کرتا ہے تو ہم لوگ کوئی نہ کو ئی ٹاؤٹ ڈھونڈتے ہیں جس سے ہمارے پیسے کا نقصان بھی ہوتا ہے اور ہم گناء کا بھی ارتکاب کر تے ہیں رشوت کی مد میں، اگر ہما ری تمام عوام اس بات کو اپنے پلے باندھ لے کہ کسی ضمیر فروش مفاد پر ست اور پولیس کے ٹاؤٹ کا ہاتھ نہیں تھامنا اور نہ کسی پولیس والے کو یا کسی پولیس کے ٹاؤٹ کو رشوت دینی ہے۔ اس بات کو اپنے دماغ میں جگہ دے کے کہ “رشوت لینے اور دینے وا لے دونوں کو ہما رے دین اسلام کی رو سے جہنمی ہو نے کا درجہ دیا گیا ہے” جب ہمارے تمام عوام ایک دینی جذبے کے ساتھ اس فارمولے پر عمل کر نا شروع کر دیں گے تو اس کے بعد بہت زیادہ تبدیلی دیکھنے کو ملے گی۔
میں سمجھتا ہوں کہ میر ی اس بات سے کئی احباب اختلاف بھی کریں گے کیونکہ ہماری عوام کا مزاج اس طرح کا بنایا جا چکا ہے۔ کھڑپینچ اور مفاد پرست ٹولوں نے تو اس طرح کی صورت حال بنا رکھی ہے کہ شہر کا قانون ہی ہاتھ میں رکھتے ہیں تو پھر ان کو ڈر کا ہے کا۔ اسی لئے تو عوام کو گذارش کر رہا ہو ں کہ جب تک آپ ان مفاد پرست ٹولوں کی حوصلہ شکنی نہیں کریں گے تب تک آپ اسی طرح پستے رہیں گے۔ مسائل، مسائلستان بنتے رہیں گے۔ انصاف آپ کے لئے مشکل ترین باب بن جا ئے گا۔
مفاد پرستوں کا عوام کو بے وقوف بنانا ایک برائی ہے اورجب تک ہم برائی کے خاتمے کی جنگ میں حصہ نہیں لیں گے تب تک ہمارا حق ہمیں نہیں مل سکتا۔ آج مسلم لیگ ن کی حکومت نے نوجوانوں کو ترقی کے نام پر ایک غلط کام پر لگانے کی جو کوشش کی ہے ہماری عوام اس پر بھی خوش ہے۔ کیا “سود” پردیے جا نے والے پیسے سے کاروبار کرنا جائز ہو گا اس پر ہم نے کبھی سوچا؟ اس بارے ہمیں کسی مفتی یا عالم دین سے رجوع کی ضرورت پیش آئی یا ہما رے علماء نے اس بات میں دلچسپی لی کہ عوام کو “سود” خور بنایا جا رہا ہے۔ جب تک عوام خود کو اللہ کے احکامات پر عمل پیراء نہیں کریں گے تب تک ہمارے چیخنے پیٹنے کا کو ئی فائدہ نہیں ہو گا۔
ہمارے علماء کا فرض بنتا ہے کہ عوام کو “سود” کی برائی سے آگاء کریں۔ تا کہ اس پر عوام کو رہنمائی ملے اور وہ خواہ مخواہ “سودی” پیسے سے کا روبار شروع کر کے اپنے اور اپنے بچوں کے لئے پریشانی نہ خریدیں۔اور عوام کا بھی فرض بنتا ہے کہ دین میں دلچسپی رکھتے ہو ئے اپنے تمام معاملات دین اسلام کی روشنی میں راہ کر حل کریں۔ تا کہ اللہ اور اللہ کے رسول کی خوشنودی حاصل کر سکیں۔ دین سے دوری کی وجہ سے ہم لوگ مفاد پرست ٹولوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ اور پھر حکومت کو برا بھلا کہتے ہیں جبکہ اس طرح حکومتوں کا ہم پر ظلم و ستم یہ ہمارے اپنے ہی اعمال کی سزا ہے جو ہم کر رہے ہیں ان کی وجہ سے ہم دن بدن پریشانی میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ تمام مسائل کا حل اللہ تعالیٰ کے احکامات اور اس کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں میں ہے۔ اللہ ہم سب کو دین پر عمل کر نے کی تو فیق دے اور اپنے مسائل کا حل دین سے تلاش کر نے کی بھی توفیق دے اٰمین۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
Malik Aamir
تحریر: ملک عامر نواز aamir.malik26@yahoo.com 00966-540715150