تحریر : عقیل احمد خان لودھی انسانی معاشروں کو انسانیت کے تقاضے پورے کرکے ہی بچایا جاسکتا ہے دنیا میں جن قوموں نے اپنے اوپر مہذب ہونے کا لیبل لگوایا انہوں نے اخلاقیات کو اپنا نصب العین بنایا ہے بہت سے ایسے ممالک بھی ہیں جن کے پاس کوئی ایسا ریاستی دستور نہیں تھاجو بہت عرق ریزی سے تیارکیا گیا ہوبس چند افراد یا اداروں نے خلوص نیت سے بہتری کی ٹھان کراپنی ریاستوں کی بہتری اور نیک نامی کے لئے کام کا آغاز کیا اور پھر کامیابیاں ان کے قدم چومتی گئیں۔ قوانین بنانے اور ان پر عملدرآمد کروانے والی شخصیات نے خود کو قوانین کی پیروی میں عملی نمونہ بنا کر دوسروں کے سامنے پیش کیا خواہ معاملہ ٹریفک اشارے پر رکنے کا تھا یا کہیں کسی ادارے سے سہولیات کے حصول کا ، حکمرانوں اور افسروں نے بلا تفریق قوانین کی پاسداری کی (وہاں آج بھی ملک کے صدور، وزیر اعظم تک عوامی قطاروں میں لگ کر بل جمع کرواتے ہیںتو کہیں ٹکٹوں کے حصول کیلئے لائنوں میں لگ جاتے ہیں ۔ کہیں کوئی پروٹوکول نظر نہیں آتا) جنہیں اختیارات سونپے گئے انہوں نے قوم کی امانت سمجھ کر ان کا استعمال کیا۔
یہی وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے وہ ریاستیں آج تہذیب یافتہ کہلاتی ہیں۔ہمارے ہاں کیا ہے الٹی گنگا تیزی سے بہہ رہی ہے، کلمہ طیبہ کی بنیاد پر بننے والے ملک جسے اسلامی جمہوریہ ہونے کا بھی ہم نے لیبل لگوالیا مگر ستر برسوں میں 1400سو سالہ دستور حیات یا دستور ریاست کی بھی کسی ایک شق پر عملدرآمدکرنا گوارہ نہ کیا ،تہذیب تو کیا آتی ہر گزرتے دن ہم جہالت کے پاسبان بن رہے ہیں۔ نہ قرآن کی مانی اور نا ہی ریاستی دستور کو خاطر میں لائے قانون شکنی کی سب سے زیادہ پریکٹس انہی کی جانب سے ہورہی ہے جن کی ذمہ داری میں قوانین کا نفاذ شامل ہے باقی اداروں کی بات کیا کریں کہ ذکر خیر کیلئے ہماری جان ومال کی حفاظت کیلئے بنائے جانے والے ادارے پولیس اور ہمارے پیارے محافظوں کی داستانیں ہی کچھ کم نہیں۔۔ پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی؟ نہیں۔۔۔۔
پولیس کا ہے فرض تذلیل آپ کی ،جی ہاں! خیر سے اگر آپ عام اور شریف شہری ہیں تو اور پھر سونے پر سہاگہ اس پر کہ آپ کو قانون کے دائرہ کار میں رہنا اور اپنا حق حاصل کرنے کا اگر کچھ شوق زیادہ ہی ہو تو ۔۔ آزمائیے اور قریبی تھانہ میںضرور جائیے ۔اگر آپ کیساتھ ہوا ہے کہیں بھی ہاتھ یا پہنچا ہے کوئی دوسرا ہاتھ آپ کے گریبان تک، تھانہ جائیے۔۔۔ محافظوں کو دیجئے درخواست اور پھر دیکھئے افسروں کی آنیاں جانیاں اور لن ترانیاں ۔۔۔واللہ ہر دوسرے پولیس اہلکار کے منہ سے پھول جھڑتے ہوںگے ۔ اگر آپ کسی شریف گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں آپ کو بدزبانی، فحش گوئی یا گالیاں بکنا نہیں آتیں تو آپ تھانہ جانے میں ذرا احتیاط ہی برتئے کیونکہ ہمارے تھانے شہریوں کی جان ومال کی حفاظت کے ذمہ دار ادارے کم ،عزت نفس کا جنازہ نکال دینے کے مراکز زیادہ بن چکے ہیں بعد میںجو آپ اپنے ذہن ودماغ میں نقش ہوجانیوالے غلیظ ناپاک تجربہ کو پاک کرنے کیلئے مہینوں غسل دیتے رہیں۔۔فائدہ؟۔۔۔ تھانوں میں پولیس اہلکاروں افسروں کی فحش کلامی، بدزبانی، یاوہ گوئی جس قدربڑھ چکی ہے یہ امر لازم ہوچکا ہے۔
Police Station
تھانوں کی عمارتوں کے باہر پولیس اسٹیشن کی بجائے اگر گالی گلوچ مرکز ،گالی ایجاد مرکز، یاانسانی تذلیل سینٹر لکھ دیا جائے جس سے اندر کے حالات کی بہتر انداز میں تعریف /عکاسی ہوسکتی ہے ۔۔ یوں توکسی ریاستی ، معاشرتی یامذہبی قوانین میں گالی گلوچ کی اجازت نہیں اور مذہب اسلام نے گالی کو سنگین جرم اور بد ترین گناہ قرار دیا ہے۔بخاری و مسلم کی متفق علیہ روایت میں نبی اکرم ۖ نے گالی گلوچ کومنافق کی نشانی قرار دیا ہے مگر کیا ہے کہ ایک اسلامی ریاست میں شخصیات ہی نہیں ادارے بالخصوص پولیس سینٹرز مسلسلا س کے فروغ کیلئے کام کررہے ہیں آپ بطور ایک عام شہری(کسی ٹائوٹ ٹائپ چوہدری صاحب جاگیردار،یا سیاستدان، وزیر وغیرہ کو ضرورت نہیںکیونکہ انہیں تھانوںکی تذلیل سے استثنیٰ حاصل ہے) کسی وقت تھانہ کا چکر لگا کرجائزہ لیں آپ دیکھیں گے کہ بعض اہلکاروں،تھانیداروں کی چند منٹ کی گفتگو گالیوں سے شروع ہو کر گالیوں کے درمیان رہتی اور گالیوں پر ہی ختم ہوجاتی ہے ایک عام فہم شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ ان پولیس اہلکاروں کا اوڑھنا اور بچھونا گالی دینا بن چکا ہے۔
کیاگالی اور پولیس لازم وملزوم ہوچکے ہیں؟ہمارے ہاں شریف شہری کو اگر پولیس سے صرف چند منٹوں کیلئے واسطہ پڑجائے تو وہ اپنی نسلوں کو بھی ان سے دور رہنے کی ہدایت کرتا ہے یہاں پولیس والے کو دیکھ کر شہری مزید خوفزدہ اور خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگتے ہیں۔ اگر کسی کے ہاں چھوٹی موٹی چوری ہوجائے یا کوئی حادثہ ہو جائے تو کہا جاتا ہے کہ تھانے جانے سے مزید مال کیساتھ عزت بھی جائے گی بار بار تفتیشی آئے گا یا پھر فون پر بلا کر گھنٹوں تھانے بیٹھا دے گا ۔ایسا ہی ہوتا ہے کئی بار تو صاحب کے فارغ نہ ہونے، میٹنگ میں ہونے یا عدالتوں میں پیش ہونے کا عندیہ دیکر آئندہ دنوں کیلئے بار بار پیشیوں پر ٹال دیا جاتا ہے جو کسی اذیت سے کم نہیں آخرپھر مجبور ا مک مکا کا فارمولہ ہی رہ جاتا ہے۔ اگر حادثاتی طور پر کوئی مجرم پکڑا جائے تو نشاندہی کے نام پر شرفائ(مدعیوں) کی شرافت کا شیرازہ بکھیر دیا جاتا ہے ۔جبکہ پکڑے جانے والے کی نشاندہی پرساتھی ملزموں کے ٹھکانوں/گھروں پر چھاپے مارے جاتے ہیں جہاں ملزم موجود ہو یا نہ ہو اس کے گھر والوں کی سختی آجاتی ہے۔
انسانی آبادیوں میں بچوں خواتین اہل محلہ کی موجودگی کی پرواہ کئے بغیر کھلے عام دیدہ دلیری سے ایسی ایسی قبیل کی گالیاں دی جاتی ہیں کہ خدا کی پناہ نہ کسی کی ماں کو بخشا جاتا ہے نہ کسی کی بہن کو، ہمارے شیر جوان ایسے میں جرات کا مظاہرہ کرکے گالیوں سے باز رکھنے والوں پر پل پڑتے اور خوب عزت افزائی کرتے ہیں۔۔۔ کس اختیار کے تحت اس کا جواب آپ کو قانون کی کسی بھی کتاب سے نہیں ملے گا البتہ اگر آپ اعلیٰ حکام کو شکایت کریں گے تو آپ کی چکروں میں رکھ کر مزید تذلیل کی جائے گی۔ ہمارے ہاں ایک مزاحیہ مثال دی جاتی ہے کہ اگر کسی ”ہاتھی”کو تھانے لے جا کر اس پر بغیر سوچے سمجھے ٹھڈوں، مکوں، گھونسوںاور فحش گالیوں کی بارش کی جائے تو وہ بھی کہے گا کہ جناب بے شک میرا ڈی این اے ٹیسٹ کروالیں میں ہاتھی نہیں بکرا ہوں اور میری نسلیں بھی بکروں کے خاندان سے ہیں۔راقم معاشرے میں قوانین کے احترام کی عادت کی وجہ سے جانا پہچانا جاتا اور اچھی شہرت کا حامل ہے۔مورخہ30ستمبر2016ء کو راقم کے بھائی بلال کو چند افراد نے تشدد کا نشانہ بنایا وقوعہ کی بابت پولیس تھانہ صدر وزیرآباد میں درخواست گزاری گئی تودرخواست جمع کروانے کیلئے جاتے ہی جو ہوا ذرا ملاحظہ ہو۔۔
Punjab Police Station
محررصاحب کے کمرے میں چار مختلف کرسیوں پر اہلکار براجمان تھے جبکہ ایک بغیر وردی اہلکار سامنے سائلین کیلئے رکھے ہوئے بینچ پر ٹانگیں پھیلا کرلیٹا ہوا تھا۔ راقم نے محرر کی سیٹ پر موجود اہلکار سے اسلام علیکم کہتے ہوئے ہاتھ ملایا تو اخلاقی اقدار کی پاسداری میں دوسرے ملازمین سے بھی سلام کی غرض سے ہاتھ ملانا مناسب سمجھا مگر دوسرے کے بعد جب تیسرے سے ہاتھ ملانے لگا تو بینچ پر لیٹے ہوئے اہلکار نے روایتی پولیسی انداز چوکنا کیا اور کہا ”اوہ ہیلو اُراں او جا ہو گئی ایے تیری سلام قبول ایہناں ای بڑا اے ساریاں نال ہتھ ملان دی ضرورت نئیں گل دس ۔۔( اوئے ہیلو ادھر ہو جا تیری سلام قبول ہوگئی ہے سب کیساتھ ہاتھ ملانے کی کوئی ضرورت نہیں)راقم پولیس اہلکار کے رویے پر حیران رہ گیا کہ محکمہ پولیس کے لوگ سائلین سے کس قدر بیزار ہیں اور کیسے غیر اخلاقی رویے سے پیش آتے ہیںسائل خاموش ہوگیا کہ شایدمحکمہ نے کوئی سرکلر جاری کردیا ہو کہ سلام کیلئے پولیس اہلکاروں کیساتھ ہاتھ نہیں ملانا۔یکم اکتوبر 2016ء کوراقم کے بھائی کی درخواست پر انکوائری کرنے والے سب انسپکٹر الیاس چانڈیو نے فون کرکے یہ کہہ کر تھانہ میں بلایا کہ ایس ایچ او صاحب نے ملزمان کو تھانہ میں بلا رکھا ہے۔
اس لئے جلدی تھانہ پہنچو راقم اپنے بھائی کے ساتھ ہی ہولیا ۔ جہاں ملزمان تو موجود نہ تھے البتہ الیاس چانڈیو اور سول کپڑوں میں ملبوس اہلکار ضرور موجود تھے ۔الیاس چانڈیو نے بغیر کسی تفتیش تحقیق کے سائل کے بھائی (درخواست گزار، مدعی) کوغیر اخلاقی رویے کا نشانہ بنانا شروع کردیا گالی گلوچ کرتے ہوئے کہا تمہارا کون سا کوئی قتل ہو گیا ہے جو تھانہ میں درخواست دے گئے ہوہمارے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ فضول درخواستوں پر کاروائی کریں۔راقم سے رہا نہ گیا اور صرف یہ کہاکہ جناب اللہ نہ کرے کوئی قتل ہوآپ نے ویسے بھی ہمیں ایس ایچ او صاحب کا کہہ کر تھانہ میں بلایا ہے یہاں آپ کا ہمیں گالیاں دینااور برابھلا کہنا کسی صورت مناسب نہیں ،یہ سنتے ہی سول کپڑوں میں ملبوس اہلکار جس کا نام بعد میںمحمد اکرم سندھو سب انسپکٹر معلوم ہوا نے سائل کے بھائی کو گریبان سے پکڑ کر گھسیٹا اور انتہائی تلخ رویہ میں کہالے جائو انہیں اور حوالات میں بند کردو۔راقم کی طرف سے اتنا کہنے پرکہ آپ ایسا غیر اخلاقی،نامناسب رویہ اختیار کرکے ہمارے ساتھ زیادتی کررہے ہیں تو موصوف مزید طیش میں آگئے اور ساراتھانہ سر پر اٹھا لیاانتہائی گستاخانہ زبان ا ستعمال کی اور راقم کو بھی حوالات میں بند کروادیا گیا۔
جہاں ہمیںماورائے قانون حراست /حبس بے جا میں رکھ کراکرم سندھو نے ہماری بے بسی کا مذاق اڑایا، الیاس چانڈیو نے جی بھر کر بھڑاس نکالی گندی، ننگی گالیاں دیں اور انتباہ کرتا رہا کہ پولیس مزید کیا کچھ کرسکتی ہے بعدازاں راقم کے بھائی احمد فراز خان لودھی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ کی جانب سے ایس ایچ او عبد الرزاق وڑائچ جو تھانہ میں موجود نہ تھے کے فون پر رابطہ کیا گیاجن کے احکامات پر ہمیں رہائی ملی۔ راقم نے پولیس اہلکاروں کی اس زیادتی، اختیارات سے تجاوز کرکے ذلیل وخوار کرنے اور حبس بے جا میں رکھنے میں جیسے غیر اخلاقی،غیر قانونی اقدامات بارے مقامی افسران، اعلیٰ اتھارٹی کو آگاہ کیا جس پر انکوائری لگ گئی۔ دو مرتبہ کال پر ڈی ایس پی وزیرآباد آفس میں پیش ہوچکا ہوں پہلی بار میں الیاس چانڈیو نے برملا یہ تسلیم کر لیا کہ اس نے راقم اور اس کے بھائی کو حوالات میں بند کیا اور ساتھ ہی اپنے دفاع میں گالی دینے کا الزام راقم پر لگا دیا۔
High Court
جبکہ دوسرا سب انسپکٹر حاضر نہ ہوا جس کی وجہ سے دوسری بار پھر پیشی رکھی گئی اب کی باردفتر سے یہ جواب ملاکہ چونکہ آپ اپنا بیان زبانی اور تحریری ریکارڈ کرواچکے ہیں اس لئے آپ کو آنے کی ضرورت نہیں اکرم سندھو سب انسپکٹر اب بھی کسی کیس کی پیروی کیلئے ہائی کورٹ لاہور گئے ہوئے ہیں۔ پندرہ روز سے زائد گزر جانے کے باوجود سائل کی دادرسی کیلئے گزاری گئی درخواستوں پر محکمہ کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکا۔پیشیوں پر بلا کر گھنٹوں وقت ضائع کرکے شکایت گزاروں کو پیروی سے مایوس کرنے کی یہ پریکٹس نئی نہیں بہت پرانی ہے۔ غیراخلاقی،غیرقانونی اقدام کے دفاع میں سائلین پرہی بدتمیزی کا الزام لگا دئے جانے کا جومعاملہ ہے ،عام فہم انسان بھی جانتاہے کہ کوئی محبوط الحواس یا ذہنی مریض بھی تھانہ میں جا کر پولیس سے بدتمیزی یا گالی گلوچ کا تصور بھی نہیں کرسکتا اورجہاں تک راقم یا اس کے بھائیوںکی بات ہے تو ہماری تربیت ہی ایسی نہیں ہوئی کہ ہم کسی کو گالی دیں اور بالخصوص اپنے سے بڑوںکیساتھ بدتمیزی کریں۔ راقم ایک تعلیم یافتہ نوجوان اور ایم ایس سی ماس کیمیونیکیشن تعلیمی قابلیت کا حامل ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ وطن عزیز میں جہاں راج دلاری جمہوریت کا دوردورہ ہو ذمہ دار اداروں میں موجود غیر ذمہ دار اہلکاروں کی ہتھ چالاکیوں، بدمعاشیوں جیسے ماورائے قوانین اقدامات کوبرداشت کرنا۔
یقینا نہ صرف اپنی ذات، اخلاقیات، اخلاقی اقدار بلکہ ریاست کیساتھ دشمنی ہے۔ چند پولیس اہلکاروں کی غیر ذمہ داری، اختیارات سے تجاوز کرنے کی عادات اور شریف شہریوں کیساتھ بداخلاقی کے واقعات کی وجہ سے یہ ادارہ مسلسل بدنام ہورہا ہے۔ پولیس اختیارات پر چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے شہریوں میں اس ادارہ کی ہی طرف سے (جس کا مقصد عوام الناس کو تحفظ فراہم کرنا ہے) عدم تحفظ کا عنصر غالب آرہا ہے۔ پرنٹ، الیکٹرانک میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا میں ہر روز نئی رپورٹس سامنے آتی ہیں اکثر ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح برملا پولیس اہلکار غلیظ زبان کا استعمال کرنے کیساتھ ساتھ ملزموں کے علاوہ نہتے شریف شہریوں کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنانے کے علاوہ گندی زبان سے لوگوں کے جذبات کو چھلنی کرتے ہیں اوراہلکاروں کے ایسے رویوں کیلئے پولیس گردی کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ پولیس گردی میں روز بروز اضافہ حکومتی گذ گورننس پر بھی بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ کروڑوں کے فنڈز ہر سال پولیس جیسے ادارے کو عوام دوست بنانے کیلئے جاری ہوتے ہیں مگر ایک دوانی (سکہ) کا بھی فائدہ نظر نہیں آتا۔
اگر ہر سال کروڑوں روپے ضائع کرنے کے باوجود پولیس اہلکاروں کو شریف شہریوں کی تذلیل سے روکا نہیں جاسکتا تو کم ازکم گالی گلوچ کیلئے قانون پاس کردیا جائے۔ہمارے معززحکمران تجربہ کار افسروںکیساتھ مشاورت کریں جوتجربہ کار اہلکاروں کی مدد سے نت نئی گالیاں ایجاد کرواکے قانون کا حصہ بنائیں سائل اور ملزم کیلئے الگ الگ گالیاں، مال پانی نہ دینے والوں کیلئے الگ اسی طرح ہر کٹیگری کیلئے مناسب گالیوں کا اہتمام کروایا جائے تاکہ قانون کا رستہ اپنانے والے شریف شہریوں کی مزید اچھے انداز میں عزت افزائی ہوسکے نیزپولیس اہلکاروںتھانیداروں کو شہریوں کی تذلیل کرنے کی کھلے عام آزادی دی جائے تا کہ کوئی بھی شخص دادرسی کے چکر میں اعلیٰ افسران کو شکایات کرکے اپنا مزید وقت، سرمایہ اور عزت دائو پر لگنے سے بچاسکے ۔۔۔ امید ہے اس عرضداشت پر ضرور غور فرمایا جائے گا۔