’ہم سوگوار تھے اور پولیس ہمارے والد کی میت لے گئی‘، نسیم گیلانی

Syed Ali Gilani

Syed Ali Gilani

کشمیر (اصل میڈیا ڈیسک)بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں اسی ہفتے انتقال کر جانے والے بزرگ علیحدگی پسند رہنما سید علی گیلانی کے اہل خانہ پر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

اس خاندان کے افراد پر بھارت مخالف نعرے لگانے اور مرحوم سید علی گیلانی کی میت کو پاکستان کے پرچم میں لپیٹنے جیسے ‘غیر قانونی اقدامات‘ کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ کشمیر کی بھارت سے آزادی کی جدوجہد کی علامت سمجھے جانے والے سید علی گیلانی اکانوے برس کی عمر میں بدھ کو انتقال کر گئے تھے۔ ان کی وفات کی اطلاع ملتے ہی وادی کشمیر میں ہائی الرٹ کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پہلے ہی بڑی تعداد میں فوج اور نیم فوجی دستے تعینات ہیں۔ فوری طور پر موبائل فون سروس، انٹرنیٹ اور آمد و رفت پر بھی پابندیاں عائد کر دی گئی تھیں۔

سید علی گیلانی کے پسماندگان کے خلاف بھارت کے غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے خصوصی ایکٹ (UAPA) کے تحت تفتیشی مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اس ایکٹ کی مدد سے کسی کو بھی بغیر کسی قانونی کارروائی کے غیر معینہ مدت تک حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔ گیلانی خاندان پر الزام لگایا گیا ہے کہ بھارتی حکمرانی کے خلاف مزاحمت کرنے اور عمر بھر کشمیریوں کی آزادی کی سیاسی جنگ لڑنے والے اس بزرگ کشمیری لیڈر کی موت کے فوری بعد ان کے گھر پر نئی دہلی حکومت کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔ اس کے علاوہ ان کے جسد خاکی کو پاکستان کے پرچم میں لپیٹنے جیسے ‘غیر قانونی اقدامات‘ بھی کیے گئے۔

سید علی گیلانی کے بیٹے نسیم گیلانی نے کہا تھا کہ پولیس نے ان کے والد کی میت زبردستی اپنی تحویل میں لے کر اور اہل خانہ کی غیر موجودگی میں ہی انتہائی خاموشی سے ان کی آخری رسومات ادا کر دی تھیں۔ ان کے اہل خانہ کے مطابق سید علی گیلانی کی دیرینہ خواہش تھی کہ انہیں سری نگر میں قبرستان شہداء میں دفن کیا جائے، تاہم حکام نے ان کے جنازے میں شرکت کے لیے کشمیری باشندوں کو بہت بڑی تعداد میں جمع ہونے اور سکیورٹی کا ممکنہ مسائل کھڑے ہونے کے خدشے کے پیش نظر فجر کی نماز کے وقت ہی انہیں گھر کے قریب ہی واقع حیدر پورہ قبرستان میں خاموشی سے سپرد خاک کر دیا۔ بھارتی پولیس نے تاہم نسیم گیلانی کے اس الزام کی تردید کر دی تھی۔

سید علی گیلانی کے بیٹے نسیم گیلانی نے ان الزامات کی تردید نہیں کی، جن کے تحت ان کے خاندان کے افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اتوار پانچ ستمبر کو خبر رساں ادارے اے ایف پی کو ایک بیان دیتے ہوئے نسیم گیلانی کا کہنا تھا، ”ہم نے ویزیٹنگ پولیس افسران کو بتایا کہ انہوں نے میرے والد کی موت کے بعد ہر چیز کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ ایک ایسے وقت پر جب ہم سوگوار تھے۔ ہمیں کچھ خبر نہیں تھی کہ کون کہاں ہے اور کیا کر رہا ہے۔‘‘

سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کردہ ایک ویڈیو میں دیکھا گیا کہ پولیس نے سید علی گیلانی کی میت ان کی فیملی سے زبردستی اور ہاتھا پائی کے بعد چھین لی تھی اور اس سے قبل اس کشمیری سیاست دان کی میت پاکستانی پرچم میں لپٹی ہوئی تھی۔ اس ہنگامہ آرائی کے دوران ویڈیو میں پس منظر سے ‘ہم آزادی چاہتے ہیں‘ کے نعروں کی آوازیں بھی سنائی دے رہی تھیں۔

بھارتی حکام نے اتوار کو کشمیر بھر میں نافذ لاک ڈاؤن میں نرمی کا اعلان کر دیا۔ اس وقت وادی میں محدود نقل و حرکت کی اجازت ہے جبکہ کل ہفتے کو انٹرنیٹ اور موبائل فون رابطوں کی بندش بھی جزوی طور پر ختم کر دی گئی تھی۔

سید علی گیلانی نے اپنی زندگی کا نصف صدی سے بھی زائد کا عرصہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے گزارا تھا۔