اپنی عزت بچائیں پر کیسے

Woman Rape

Woman Rape

تحریر : ممتاز ملک.پیرس

حیرت ہوتی ہے سن کر کہ کوئی پولیس والا یا محافظ کیسے کسی مدد طلب کرنے والے کو کہہ سکتا ہے کہ یہ معاملہ ہماری حدود کا نہیں ہے؟

بھئ وائرلیس پر پیغام وائرل کیا جاتا ہے کہ اس پوائنٹ کے نزدیک جو بھی پولیس کی گاڑی موجود ہے فورا موقع مدد پر پہنچے ۔

یہ کیا ذلالت ہے کہ یہ ہماری حدود میں نہیں ہے ؟؟؟؟

پولیس ہمارے ٹیکسز سے مال بٹورتی ہے بطور تنخواہ اور ڈاکہ ڈالتی ہے ہماری جیبوں پر بشکل رشوت اور بھتہ بعوض مشاورت کے ۔ کب سے پولیس لوگوں کا ماما چاچا بن کر مشورہ دینے پر مامور ہو گئی ۔ ان کا کام عوام کی حفاظت کرنا ہے مشورے دینا نہیں ۔

تل تل کر مرنے کے لیئے برباد کر دی جانے والی زندگی گزارنے پر مجبور کر دی جانے والی عورتیں اور بچے کیسے جیتے ہیں ۔ ان کی نفسیات پر اس کے کیا کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ؟ کیسے جیتا ہے زندہ درگور ہونے والے یہ مظلوم ؟ کوئی اس کا اندازہ نہیں لگا سکتا ۔ یہ تکلیف صرف وہی جانتا ہے جس پر گزرتی ہے۔ ان درندوں کا مستقل علاج کیجیئے ۔ عبرت ناک علاج ۔

کیوں نہیں ہے خوف ایسے بدکاروں اور بدذاتوں میں کسی کا ۔ خدا کا خوف رہا نہ ہی دنیاوی شرمساری کا ۔۔

ہماری مائیں ، ہمارے علماء ، ہمارے خطیب ، ہماری موم بتی مافیا ہماری پولیس ، ہمارے وکیل ، ہمارے ججز ۔۔۔کہاں ہیں یہ سب کے سب ؟ اپنے فرائض کہاں ادا کیئے ہیں انہوں نے ؟ مان لیجیئے کہ یہ سب ناکام ہو چکے ہیں ۔

پہلے تربیت سے عاری معاشرہ اور پھر سر عام عبرتناک سزاوں کا نہ ہونا یہ ہی وجوہات ہیں ان تمام جرائم کی آماجگاہوں کو پروان چڑھانے کی ۔ جس روز چار مجرمان سر عام لٹکا دیئے گئے چوراہے میں ، تو وہ علاقہ کم از کم دس سال کے لیئے محفوظ ہو ہی جائے گا ۔ کسی کا عہدہ ذات پات رشتہ دیکھے بغیر بدکاری کے مجرمان کو سزا کا قانون صرف پاس ہی نہیں کرنا ۔۔۔چار دن اس پر میڈیا میں شور مچا کر اسے کارپٹ کے نیچے نہیں دبا دینا ۔۔۔ سرعام پھانسی کا صرف مطالبہ ہی نہہں کرنا بلکہ یہ قانون بنوا کر لاگو کروانا ہے اور چوبیس گھنٹے کے اندر ایسے واقعات کو پہلی ترجیح دیتے ہوئے مجرمان کو سرعام پھانسیاں دی جائیں ۔ ہمارے ملک میں ہر جمعے کی نماز کے بعد کھلے عام چوک میں ایسی سزاوں کو پوری قوم کی تربیت کا مرحلہ سمجھتے ہوئے عمل کرنا ہو گا ۔

اس کے لیئے ہمیں یورپی ممالک کی ناراضگیاں نہیں دیکھنی چاہیئیں بلکہ اللہ کی کتاب قرآن پاک ہمیں سزاوں کا معیار ہونا چاہیئے۔ اور اللہ کے عذاب اور پکڑ سے ڈرنا چاہیئے ۔ انہیں نہ صرف لٹکائیں بلکہ ان کی لاشیں نہ دفنانے کی اجازت ہو ، نہ انکا جنازہ پڑھا جائے ، نہ انکی قبر بنائی جائے بلکہ انکی لاشیں بھوکے کتوں کے آگے ڈال دی جائیں ۔

دوسری سزا یہ ہے کہ ایسے تمام گندوں کو نامرد کر کے اسکے ماتھے پر بدکار کی انمٹ مہر لگا دی جائے اور اسے اسی معاشرے میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جینے کے لیئے چھوڑ دیا جائے۔

تیسری سزا یہ ہے کہ ایسے مجرموں کو ایک ایک پنجرے میں ڈال کر شہر کے چوراہوں میں بھوکا پیاسا تادم مرگ لٹکا دیا جائے ۔ آتے جاتے ہر آدمی حسب توفیق انہیں پتھر مارے ۔ انکی موت کے بعد بھی انہیں غسل کفن اور دفن سے محروم کر دیا جائے ۔ اور انہیں نامعلوم کھڈوں میں پھینک کر زمین کو برابر کر دیا جائے۔

سزاوں کا مقصد مجرمانہ سوچ رکھنے والوں کے رونگٹے کھڑے کرنا ہونا چاہیئے ۔ دنیا والے ناراض ہو جائینگے کہہ کر کوئی بھی حکمران اپنی ذمہ داری سے پلہ نہیں جھاڑ سکتا ۔ کیونکہ اس ملک کی آددھی آبادی کی جان اور عزت داو پر لگی ہوئی ہے اور دنیا کی کوئی یونین اور مملکت ان کی حفاظت کے فریضے کے لیئے روز قیامت آپ کا گریبان ان مظلوموں کے ہاتھ سے نہیں چھڑا سکتی ۔

اس ملک میں عورت اور بچے کو تحفظ دینا اگر آپ کے بس میں نہیں رہا تو پھر ہم عورتوں کو اپنی اور اپنے بچوں کی حفاظت کے لیئے خود سے کچھ اقدامات لینا ہونگے ۔

یہ حفاظت اگر حکومت، قانون ساز اداروں اور پولیس کے بس میں نہیں رہی ہر عورت کو لوڈڈ پستول رکھنے اجازت دیدی جائے ۔ جہاں اس پر کوئی سور حملہ کرنا چاہے ، اسے کوئی خطرہ ہو وہاں اس مجرم کو وہ گولی مار دے۔

خس کم جہاں پاک

یورپ اور امریکا کیساتھ ایسے واقعات پر مقابلہ کرنے والوں کو بات کرنے سے پہلی تھوڑی شرم ضرور کرنی چاہیئے ۔ ایسی ہر روز کی مثالیں آئے دن کے واقعات آپکے مسلمان اور مہذب ہونے کا پول کھل کر کھولتی رہتی ہیں ۔

خواتین کو ہر ملک کو فرانس اور یورپ نہیں سمجھ لینا چاہیئے ۔

سنا ہے کہ متاثرہ خاتون اپنے بچوں کو اسلامی تعیمات اور اپنا کلچر سکھانے کے لیئے فرانس چھوڑ کر پاکستان منتقل ہوئی تھی ۔۔لیکن اس افسوسناک واقعہ کے بعد انہیں یہ سمجھ آ چکا ہو گا کہ ان کے بچوں کی آنکھوں کے سامنے کونسا اسلام اور کلچر محفوظ کرا دیا گیا ہے ۔ ۔۔۔میرے خیال میں انہیں پہلی فلائٹ سے اپنے بچے لیکر فرانس پہنچ جانا چاہیئے ۔ جہاں سے وہ یہ اعتماد لیکر گئی تھیں کہ انکی عزت محفوظ ہے اور وہ “اپنوں “کے بیچ ہیں ۔ یہ چور چور اعتماد اب واپس یورپ آ کر ہی بحال ہو سکتا ہے ۔

وہ لوگ جو مجھ سے بدزبانی کی حد تک بحث کیا کرتے تھے کہ اسلامی ملک اور ہمارا اسلامی کلچر ۔۔۔۔ان میں حیا ہو تو یہ واقعہ اور اس جیسے تمام واقعات ان سب کے منہ پر ایک کرارا جواب ہے ۔ حقائق سے آنکھیں مت چرائیں۔ بحث برائے بحث محض آپکے اندر کا بغض ہی سامنے لاتا ہے اس سے کوئی تعمیری نتیجہ کبھی نہیں نکل سکتا۔

Mumtaz Malik

Mumtaz Malik

تحریر : ممتاز ملک.پیرس