پولیس افسران کاعدالتوں میں ملزمان کے خلاف گواہی دینے اور برآمدہ اسلحہ پہچاننے سے انکار

Police Officers

Police Officers

کراچی (جیوڈیسک) پولیس افسران عدالتوں میں ملزمان کے خلاف گواہی دینے اور برآمدہ اسلحہ پہچاننے سے انکار کرنے لگے ،عدالتیں ملزمان کو سزا دینے سے قاصر ہوگئیں۔

سندھ اسلحہ ایکٹ کے تحت قائم کئی مقدمات میں پولیس افسران جان بوجھ کر قانونی سقم پیدا کرکے منحرف ہونے لگے،کئی مقدمات میں پولیس افسران نے مبینہ طور پر ملزمان سے لاکھوں روپے وصول کرلیے۔

تفصیلات کے مطابق حکومت سندھ نے کراچی میں دہشت گردی اور بدامنی کے خاتمے کیلیے سندھ اسلحہ ایکٹ کا قانون اسمبلی سے منظور کرایا ایکٹ کے تحت غیر قانونی اسلحہ رکھنے والے ملزمان کی سزا3 سال بے بڑھا کر 14 برس کردی گئی اور مقدمات کی سماعت کیلیے خصوصی عدالتیں قائم کی گئیں تاہم پولیس افسران عدالتوں میں ملزمان کے خلاف گواہی دینے اور ملزمان کے قبضے سے برآمد شدہ اسلحہ پہچاننے سے انکار کرکے اپنے بیانات میں سقم پیدا کرکے ملزمان کو فائدہ پہنچارہے ہیں۔

سرکاری وکیل سید شمیم احمد نے سب انسپکٹر محمد ذکریا کریجو کو پیرآباد تھانے میں سندھ اسلحہ ایکٹ کے تحت درج مقدمے میں ملوث ملزم اویس قادری کے مقدمے میں بطور گواہ پیش کیا پولیس افسر نے بیان قلمبند کرانے کے بعد دوران جرح اپنے ہی بیان میں سقم پیدا کرکے ملزم کو براہ راست فائدہ پہنچایا۔

گواہ نے جرح میں عدالت کو بتایا کہ اس نے ملزم سے برآمد ہونے والے اسلحہ ایف ایس ایل کے ماہر کو رائے کیلیے نہیں بھیجا، ملزم سے برآمدہ اسلحے کا تعین نہیں ہوسکا کہ وہ نقلی ہے یا اصلی، تھانہ مومن آباد میں گرفتار ملزم محمد احمد عرف بیٹری کے مقدمے میں سب انسپکٹر نے اپنے بیان میں بتایا کہ اس نے اسلحہ کو فارنسک لیبارٹری نہیں بھیجا جس کی وجہ سے ایف ایس ایل رپورٹ عدالت میں پیش نہیں کی جاسکتی۔

تھانہ جیکسن میں سندھ اسلحہ ایکٹ کے تحت گرفتار ملزم رحمن اﷲ کے مقدمے میں اہلکار امام دین نے اپنے بیان میں ملزم سے برآمد شدہ اسلحے کو شناخت کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ملزم سے جو اسلحہ برآمد ہوا تھا وہ عدالت میں موجود نہیں ہے۔

ملزم صفدر حسین جسے تھانہ پیرآباد نے اسلحہ سمیت گرفتار کیا تھا اورگرفتاری کے موقع پر پولیس اہلکار کو گواہ بنایا تھا اسسٹنٹ سیشن جج غربی کی عدالت میں تھانہ پیرآباد کے اہلکار نے ملزم کو شناخت نہیں کیا اور اپنے ہی بیان سے منحرف ہوگیا۔