تحریر : محمد اکرم خان فریدی جب سلطنت عباسیہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہُ کے اُس قول کو اپنایا جس میں انہوں نے استاد کے احترام کا زِکر کیا تھا اور اِسی قول کے پیشِ نظر سلطنت عباسیہ کے شہزادگان اپنے اساتذہ کی جوتیاں اٹھانے میں سبقت لے جانا ثواب دارین اور فلاح کا ذریعہ سمجھتے تھے تو ان کی حکمرانی نصف سے زائد پوری دنیا تک محیط رہی ۔ اس کی تقلید مغرب نے کی تو آج یورپ، کوریا اور جاپان جن بلندیوں پر فائز ہیں اس کی اساس، روح اور بنیاد اساتذہ کا احترام ہے۔
قارئین کرام :چند ماہ قبل جرمنی میں مختلف محکمہ جات عدلیہ، صحت عامہ، انجینئرز سمیت دیگر سرکاری اہلکاران پر مشتمل ایک وفد چانسلر انجیلا مرکل سے ملا اور ملاقات میں استدعا کی کہ ہمارے فرائض منصبی کے مطابق ہماری تنخواہیں بہت کم ہیں جب کہ اساتذہ کرام کی تنخواہیں ہم سے کئی گنا زیادہ ہیں ہماری مراعات بھی ان کے مطابق کی جائیں تو جواب میں چانسلر جرمنی نے تاریخی الفاظ ادا کیے
Thats it !Teachers are not common people and common people are not teachers. please, don,t compare yourselves with these mighty personalities until your are worth it.
عین اسی طرح ایک اور مثال ہے کہ برطانیہ کی ایک عدالت میں ایک ٹیچر گیا تو ٹیچر نے چالان کا جرمانہ بھرنا تھا،ٹیچر نے جاتے ہی عدالت سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میں معذرت خواہ ہوں کہ میں دیر سے پہنچا چونکہ میں کلاس میں تھالہذا ! استدعا ہے کہ میرے چالان کی فیس جمع کر لی جائے ۔جب عدالت کو معلوم پڑا کہ ہماری عدالت میں ایک ٹیچر آیا ہے تو جج صاحب اُٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے A Teacher in my court. یہ سُن کر تمام حاضرین ٹیچر کے اعزاز میں اُٹھ کھڑے ہوئے اور عدالت نے ٹیچر کا وقت ضائع کئے بغیر ٹیچر کو فوراً فارغ کر دیا تاکہ ٹیچر کا وقت ضائع نہ ہو ۔قارئین! معلم بلاشبہ دنیا میں سب سے معزز ترین، اعلیٰ ترین منصب پر فائز وہ قائد ہے جو روح کو جلا دیتا ہے ، شعور اجاگر کر تا ہے ۔صحت مند معاشرے کی تخلیق اساتذہ کی شب روز کاوشوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔مملکت خداداد پاکستان میں حالات اس کے برعکس ہیں ۔ اساتذہ کا تعلق خواہ کسی بھی شعبہ سے ہو اس کا احترام،توقیر،عظمت ،عزت اور حرمت کو ہمیشہ بالائے طاق رکھا جا تا ہے ۔لیکن یہاں تاریخ کی بد ترین مثال یہ ہے کہ گزشتہ دنوں شعبہ میتھ کے ایک سینئر ٹیچرزین العابدین ایک کیس میں گواہی کے لئے تھانہ اے ڈویژن شیخوپورہ میں TASIجاوید احمد کے پاس گئے تو متعلقہ اے ایس آئی کے غیر اخلاقی رویہ کے پیشِ نظر جب انہوں نے تعارف کروایا کہ میں ٹیچر ہوں لہذا ! آپ میری بے عزتی نہ کریں تو محترم اے ایس آئی صاحب نے جواب میں کہا کہ جناب حوالات میں قیدیوں کو ٹیچر کی بڑی ضرورت ہے لہذا ! آپ اپنا سامان نکال کر جمع کروا دیں تاکہ آپ کو حوالات میں بند کر دیا جائے ۔جبکہ اس سے بھی زیادہ غیر اخلاقی حرکت تو یہ تھی کہ اے ایس آئی نے ٹیچر کے سر پر دو گن مین کھڑے کر دئیے ۔تین گھنٹے تک سینئر ٹیچر کو زلیل کرنے کے بعد تھانہ سے باہر نکال دیا ۔ٹیچر کی شکائیت پر پولیس کے اعلیٰ حکام نے انکوائری کا عمل تو شروع کر دیا ہے لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ تحریر کرنا پڑ رہا ہے کہ محکمہ پولیس کے حکام انکوائری کی آڑ میں مزکورہ ٹیچر کو مزید خوار کریں گے جبکہ مزکورہ بالا اے ایس آئی کی بد اخلاقی کے حوالے سے غلط شہرت اور سپیشل برانچ کی سفارشات کے باوجود اگر اُسے سزا نہیں دی گئی تو ایک پاکستانی ٹیچر کی درخواست پر اُسے کیسے سزا ملے گی۔
بہر حال میں تو اِس کیس کو محکمہ پولیس بالخصوص حکومت ،پولیس حکام اور دیگر ایجنسیوں کے لئے ایک چیلنج سمجھتا ہوں کہ ایک پاکستانی ٹیچر کے ساتھ ہونے والی بد تعمیزی کی وجہ سے لگنے والا داغ کیسے مٹایا جا سکتا ہے ۔لیکن دوسری جانب پولیس حکام سے اُمید کم ہے کہ وہ ٹیچر کے ساتھ بد تعمیزی کرنے والے اے ایس آئی کو عبرت کا نشان بنائے۔ لیکن اگر پاکستانی ٹیچر کے ساتھ زیادتی کرنے والے اے ایس آئی کو عبرت کا نشان بنا دیا گیا تو شاید اساتذہ کی عزت نفس بھی بحال ہو جائے اور ہم بھی ترقی یافتہ اور زندہ قوم بن سکیں۔
Mohammad Akram Khan Faridi
تحریر : محمد اکرم خان فریدی کالم نگار 36-مجاہد نگر ،جنڈیالہ روڈ شیخوپورہ شہر 03024500098