پولیس اور سفارش

Police

Police

تحریر روہیل اکبر

پولیس پاکستان کا واحد ایسا ادارہ ہے جہاں نوکری کا کوئی وقت نہیں یوں سمجھیں کہ ایک پولیس والا 24گھنٹے اپنی ڈیوٹی پر ہوتا ہے اور تنخواہ اتنی کم کہ ان سے زیادہ ہمارے ہاں گداگر لوگ صرف 6یا 8گھنٹے کام کر کے کما لیتے ہیں اسکے باوجود کسی نے تنگ آکر نوکری نہیں چھوڑی کیونکہ اس محکمہ میں آکر یہ شیر جوان ہوشیار،چالاک،موقعہ شناس،خوش آمدی،وحشت ناک،خطرناک،مفاد پرست،مفت خور، بدمعاش اور وقت آنے پر مظلوم اتنے زیادہ کہ شائد ہی کسی اور محکمہ میں اتنی بڑی تعداد میں نظر آئیں بن جاتے ہیں کہ انہیں کسی چیز کی کمی کا احساس ہی نہیں رہتا پورے محکمہ پولیس میں رضا کار اور کلرک بادشاہ سے لیکر اوپر تک کوئی ایک ایسا بندہ ڈھونڈ نا مشکل ہو جائیگا جو سفارش نہ کرواتا ہو،جو پیسے نہ لیتا ہو،جو سرکاری گاڑی اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال نہ کرتا ہو۔

چوروں اور ڈاکوؤں کی سرپرستی نہ کرتا ہو، بے گناہوں پر مقدمے نہ کرتا ہو،قاتلوں سے رشوت نہ لیتا ہو،منشیات بیچنے والوں کا سرپرست اور سگریٹ پینے والوں پر بھاری منشیات ڈال کر پرچے نہ دیتا ہو،عرصہ دراز سے ایک ہی شہر اور ایک ہی سیٹ پر تعینات نہ ہو،اپنے سے اوپر اعلی افسر کے ڈرائیور،گن مین اور اردلی کو خوش نہ کرتا ہو، علاقے کے زمیندار،چوہدری،ایم پی اے،ایم این اے اور وزیر کا نمک خوار نہ ہوتا ہو اور تو اور کوئی ایک بھی ایسا پولیس والا ملنا مشکل ہو جائیگا جسکے پاس غریب اور لاچار آدمی خوشی سے بیٹھ سکے یہاں پر تو مدعی کو اپنا کام کروانے کے لیے ملزم سے زیادہ پیسے خرچ کرنا پڑتے ہیں پنجاب پولیس کے محکمہ کے پاس صوبہ پنجاب کے 36 اضلاع میں 718 تھانے ہیں جن میں سے 4 تھانے خاص طور پر خواتین مجرموں کے لیے قائم کیے گئے ہیں ان تھانوں میں ڈھونڈنے سے بھی کوئی ایماندار اور فرض شناس افسر کا ملنا محال تو ہے ہی یہاں عام انسانوں کی طرح گفتگو کرنے والوں کی بھی شدید کمی ہے سفارشیوں اور راشیوں کی بھر مار کی وجہ سے پولیس کلچر تبدیل ہی نہیں ہوسکتا۔

حالانکہ وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کی بڑی کوشش ہے کہ وہ صوبہ میں کم از کم پولیس کو ہی تبدیل کردیں وزیاعظم عمران خان کی بھی سب سے زیادہ توجہ پولیس کو درست کرنے پر ہی رہی اور وہ کے پی کے میں بہت حد تک کامیاب بھی رہے مگر پنجاب پولیس اورسندھ پولیس میں تبدیلی کا امکان لاکھ کوششوں کے باوجود بھی پورا نہیں ہوسکتا یہاں پر کوئی فرشتہ بھی آکر آئی جی لگ جائے تب بھی ان کے رویوں میں تبدیلی ناممکن ہے چار واقعات کا میں خود گواہ ہوں ایک بار پنڈی میں میرا موبائل چھین لیا گیا دوسری بار مجھے اور میرے دوست ندیم کو یو ای ٹی گیٹ کے سامنے لوٹ لیا گیا۔

تیسری بار میری بیگم کا پرس گھر کے باہر سے چھین لیا گیا اور چوتھی بار ابھی کچھ دن قبل میرے دفتر میں چوری ہوگئی ہر بار پولیس کے پیچھے چکر لگائے مگر پھر خود ہی وقت کا ضیاع سمجھ کر خاموشی اختیار کرلی جبکہ دو درخواستیں تو بغیر کسی کاروائی کے ہی خارج کردی گئی مجھے نہیں معلوم کہ پولیس کن کے لیے اور کیسے کام کرتی ہے افسران کے پاس سرکاری گاڑیاں ہیں جو سرکاری پیٹرول سے چلتی ہیں اور پولیس انکی ذاتی ملازم بنی ہوئی ہے آپ صرف لاہور پولیس کو ایک نظر دیکھ لیں جہاں منشیات ہر جگہ فروخت ہورہی ہیں۔

جوئے کے اڈے سرعام چل رہے ہیں اوراسٹیشن سے مزنگ تک کے ہوٹلوں میں لڑکیوں کی منڈیاں لگی ہوئی ہیں چوری کی اشیا انہی ہوٹلوں میں خردی جاتی ہیں جیل روڈ نالے کے ساتھ پلازے میں پورا فلور لڑکیوں سے بھرا ہوا ہے یہ سبھی پولیس والوں کی نظروں میں ہیں مگر انہیں انکا حصہ مل رہا ہے اس لیے کسی کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوتی یہاں پر مدعی ہر کام کرکے پولیس تک پہنچتا ہے مگر پھر بھی پولیس کوئی کاروائی نہیں کرتی میرے دفتر سے ایل سی ڈی چوری ہوئی اور مزنگ کے ہوٹل النور میں فروخت ہوگئی میں نے تھانہ سول لائن درخواست دی سب انسپکٹر نذیر کو مارک ہوئی اسے بار بار فون کیے مگر کوئی لفٹ نہیں کروائی اپنے چوری ہونے والے سامان کا بتایا تو اسکا جواب تھا کہ کوئی کاروائی نہیں کرسکتا اور پھر مجھے میسج آیا کہ آپکی درخواست خارج کردی گئی تو میں حیران ہوا کہ یہ اس تھانے کی بات ہے جو وزیر اعلی پنجاب کی دیوار کے ساتھ ملتا ہے اور اس شہر کی بات ہے جہاں چیف سیکریٹری اور آئی جی بیٹھتا ہے اور یہ اس سڑک کا واقعہ ہے۔

جہاں تمام کے تمام حساس ادارے موجود ہیں یہاں پر پولیس کا یہ رویہ ہے تو پھر باقی پنجاب کی عوام کا کیا حشر ہوتا ہوگا اگر سول لائن تھانے میں نذیر احمد جیسا سب انسپکٹر موجود ہے تو باقی سبھی تھانوں میں کئی نذیرے ہونگے جنکی وجہ سے عوام نہ صرف تنگ ہوتی ہونگی بلکہ انصاف کا نظام بھی کہیں چھپ کر بیٹھا ہوگا اس لیے پولیس نظام کو مکمل تبدیل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عام لوگوں کو انصاف کا حصول آسان ہوسکے یہاں پر سفارشی کلچر کو ختم کرنا ہوگا اس وقت لاہور کے تھانوں میں کس کس کی سفارش پر کون کون تعینات ہے اسکی لسٹ بھی مل سکتی ہے کہ کیونکہ جب بھی کوئی فرد اپنے کسی چہیتے کی سفارش کرتا ہے تو متعلقہ افسر اسکی فائل کے ایک کونے پر اسکے سفارشی کا نام بھی لکھ لیتا ہے تاکہ پتا چلے کہ اسکی سفارش کس نے کی تھی۔

خاص کر عرصہ دراز سے لاہور میں تعینات افسران کو بھی لاہور سے باہر تعینات کیا جائے تاکہ یہاں کے حالات بہتر ہوسکیں خاص کر جو جرائم کی نرسریاں یہاں لگ چکی ہیں وہ تناور درخت بننے سے قبل بند ہو جائیں لاہور میں کرائے کے قاتلوں،بدمعاشوں،رسہ گیروں، منشیات فروشوں اور جواریوں کی لسٹیں سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہتی ہیں اور یہ وہی لسٹیں ہیں جو پولیس والوں کے پاس بھی موجود ہیں مگر آج تک کسی کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوسکی سبھی نامی گرامی افراد بڑے معزز بنکر اپنے اپنے اڈے چلا رہے ہیں حکومت پنجاب نے نیا بلدیاتی نظام دیدیا ہے کیا ہی اچھا ہوتا اگر پولیس کو بھی انہی بلدیاتی اداروں کے ماتحت کردیا جائے مشرف دور میں جب ضلعی نام کے ماتحت پورا سسٹم کیا گیا تھا تو بہت سی بہتری ہوئی تھی خاص کر پولیس کی غنڈہ گردی اور بدمعاشی بھی کسی حد تک کم ہوگئی تھی اور عام آدمی بھی تھانے جاتے ہوئے ہچکچاتا نہیں تھا امید ہے عثمان بزدار پولیس کلچر پر بھی توجہ دینگے تاکہ عوام کو انصاف کا حصول آسان ہو سکے۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر: روہیل اکبر