تحریر : منظور احمد فریدی اللہ لم یزل کی کروڑ ہا بار حمد وثناء اور نبی رحمت جناب محمد مصطفی کریم آقا ۖکی ذات پر درودسلام کے بے پناہ نذرانے پیش کرنے کے بعد راقم عرض کناں ہے کہ اللہ جل شانہ نے حضرت انسان کو اپنی ساری مخلوقات میں سے خوبصورت بنایا اور اشرف المخلوقات کا تاج پہنا کر اپنا نائب مقرر فرما دیا پھر اسے اتنی عزت و توقیر بخشی کہ دنیا کی ہر شئے کو اس کا تابع کردیا پھر اسکی اصلاح کے لیے انبیاء کرام علیہ السلام کی ایک کثیر تعداد مبعوث فرمائی اور آخر میں وجہ تخلیق کائنات جناب محمد رسول اللہ ۖ کو مبعوث فرما کر اس کائنات کو مکمل فرما دیا صد احسان اس مالک کا کہ جس نے ہمیں اپنے محبوب کی امت میں پیدا فرمایا اور پھر مسلمان ہونے کا شرف عطا کیا۔
ارض پاک مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ملک عطا فرمایا ایسا ملک جس میں بلند بالا چوٹیاں بھی ہیں اور ریگستان بھی سر سبز میدان بھی ہیں اور وسیع و عریض سمندر بھی دریا اور آبشاروں کا حسن بھی عطا فرمایا مگر افسوس کہ اس کی باگ ڈور آج تک اس طبقہ کے ہاتھ میں ہی ہے جس کو شعائر اسلام سے واقفیت ہی نہیں کبھی وہ جوتوں سمیت مساجد میں داخل ہورہے ہیں تو کبھی اذان بج رہا ہے کا بھاشن دے رہے ہیں۔
قانون کی گھتیاں سلجھانے والے ان نام نہاد مسلمانوں کو سورة اخلاص تک یاد نہیں ایک اسلامی ریاست کے سربراہ کو اسلام کا علم سب سے ذیادہ ہونا چاہیئے تھا مگر افسوس کہ اس ریاست میں اسلامی قوانین نہ ہونے سے اقتدار میں آنے والے ہر فرد نے اسے اپنے باپ داد ا کی جاگیر سمجھا پوری دنیا میں کسی بھی ریاست کی کامیابی کے تین بنیادی ستون عدلیہ مقننہ اور انتظامیہ ہی سمجھے جاتے ہیں مگر وطن عزیز میں یہ بنیادی ستون اپنی جگہ کے بجائے اور جگہ پر لگ چکے ہیں۔
سب سے پہلے ذمہ داری ایوانوں میں بیٹھنے والوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی رعایا کے مسائل کے مطابق قوانین مرتب کریں مگر ہمارے ایوانوں میں براجمان طبقہ نے اپنے اصل کام سے ہٹ کر قانون کے بجائے سڑک بنانے پل بنانے اور ایسے منصوبے شروع کیے جن میں عوامی مسائل کے حل کے بجائے ان کا ذاتی مفاد ذیادہ تھا ہمارے حکمرانوں نے ہماری غربت اور افراط زر کی بڑھتی ہوئی شرح کے لیے قانون بنانے کے بجائے میٹرو ٹرین اور میٹرو بس جیسے منصوبے شروع کیے۔