پولیس ہر ڈکیتی میں گارڈز کو ملوث کرنے لگی، نجی سیکیورٹی اداروں کی ساکھ مجروح

Private Security

Private Security

کراچی (جیوڈیسک) شہرمیں ہونے والی بینک ڈکیتیوں میں نجی سیکیورٹی گارڈز کے ملوث ہونے کی شرح 0.001 فیصد سے بھی کم ہے لیکن پولیس کی غلط معلومات کی بنیاد پر خبروں کی اشاعت نے سیکیورٹی ایجنسیوں کی ساکھ کو مجروح کردیا ہے۔

حکومت نجی سیکیورٹی کمپنیوں کو 22 اور 23 بور کی آٹومیٹک رائفلوں کی اجازت جاری کرے، ان خیالات کا اظہار آل پاکستان سیکیورٹی ایجنسیز ایسوسی ایشن کے چیئرمین کرنل (ر) توقیرالاسلام نے کراچی چیمبر کے سینئر نائب صدر مفسرعطا ملک کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران کیا۔

توقیر الاسلام نے بتایا کہ سندھ میں 60 ہزار نجی سیکیورٹی گارڈز اپنی خدمات فراہم کرکے پولیس کی معاونت کررہے ہیں جبکہ ملک بھر میں 2 لاکھ نجی محافظ خدمات انجام دے رہے ہیں رواں سال شہر میں ہونے والی 14 ڈکیتیوں میں سے صرف 2 میں نجی سیکیورٹی گارڈز ملوث پائے گئے لیکن اس کم شرح کے باوجود ڈکیتی کے ہر واقعے میں نجی سیکیورٹی گارڈز کو ملوث قراردے دیا جاتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ شعبے کی غیرمنظم سیکیورٹی کمپنیوں کے خلاف موثر کارروائی کی ضرورت ہے جن کے گارڈز صرف یونیفارم پہن کر خدمات انجام دے رہے ہیں یا پھر سب لیٹنگ کمپنی کے طور پر گارڈز کی خدمات فراہم کررہی ہیں۔

ایسوسی ایشن کے ملک بھر میں 300 رکن سیکیورٹی ایجنسیاں ہیں جو وضع کردہ رہنما اصولوں پر خدمات فراہم کررہی ہیں، انھوں نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے نجی سیکیورٹی اداروں اور ایجنسیوں کو صرف 9 ایم ایم پستول اور شارٹ گن کی اجازت دی گئی ہے جبکہ ڈکیت جدید ترین اسلحے سے لیس ہوتے ہیں جس کی وجہ سے نجی گارڈز کو ان کے ساتھ مقابلے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔