تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ مسلم لیگ ن سمیت ہردورکے پاکستانی حکمرانوں کا جلسے ،جلسوں اور ایوانوں میں یہی شکوہ رہاہے کہ بحرانوں کے ہم ذمہ دار نہیں بلکہ سابق حکمران تھے اپنی نااہلی یا ناقص حکمت کو چھپانے کیلئے ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے رہے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ امن و سکون اور بنیادی ضروریات کا حصول عوام کا حق ہے اور ان کی فراہمی حکمرانوں کا فرض اور یہی رفاہِ عامہ کا بنیادی فلسفہ ہے۔ امن و سکون اور احساسِ تحفظ آج کے دور میں ناپید ہوتا چلا جارہا ہے۔ حکمران (بہترین طرز حکومت) کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر اس کے عملی مظاہر ہمیں کہیں بھی نظر نہیں آتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کے حکمران ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں، قومی اداروں کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں، قانون و آئین کو اپنی خواہشات کے مطابق ڈھالنے اور اپنی نااہلیت و کرپشن چھپانے کےلئے استعمال کرتے ہیں۔
اسلام کی تاریخ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا زمانہ ایک ایسا عہدِ زریں ہے جو کہ رہتی دنیا تک تمام حکمرانوں کے لئے ایک روشن مینار کی حیثیت رکھتا ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اسلامی تاریخ میں پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے ریاست کو باقاعدہ منظم شعبہ جات دیئے اور بعد ازاں بہت سی اصلاحات نافذ کیں۔ ان اقدامات سے جہاں لوگوں کو تحفظ اور امن و امان فراہم ہوا وہیں کئی لوگوں کو مستقل روزگار فراہم ہو گیا۔ معمول کے حالات ہوں یا ہنگامی حالات قحط ، سیلاب، زلزلہ اور جنگ ہر دو حالات میں عوام کی رفاہ وبہبود کے لیے تاریخی اقدامات کئے گئے۔ رفاہِ عامہ کے وسیع تر مقاصد کے حصول کے لئے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے چند اقدامات کا ذیل میں تذکرہ کیا جاتا ہے۔
اندرونی خلفشار اور برائیوں پر قابو پانا ایک اچھے حکمران کی ضرورت ہوا کرتا ہے۔ سیدنا فاروق اعظم نے اس مسئلہ کے حل کے لیے پولیس کے محکمہ کی بنیاد رکھی اور لوگوں کو فوری اور آسان انصاف کی فراہمی اور جرائم کی روک تھام کے لیے اس محکمے کو منظم کیا۔ سیدنا فاروق اعظم نے لوگوں کی فلاح اور بہتری کے لیے بہت سے ایسے قوانین نافذ کیے جن کا تقاضا انسانی اخلاقیات کرتی ہیں۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے قیام امن کی خاطر پولیس کے محکمے کی بنیاد رکھی۔ اس سے پہلے شہروں اور قصبوں کی اندرونی حفاظت کا انتظام لوگ خود ہی کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پہرے داروں کا تقرر کیا جن کا کام راتوں کو گشت کرنا اور تاریکی کے اوقات میں حفظ امن تھا۔ اس محکمہ کے ساتھ جیل بھی قائم کی۔ عرب میں اس سے پہلے جیل کا رواج نہ تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مختلف شہروں میں جیل خانے قائم کیے اور بعض جرائم کی سزاﺅں میں ترمیم کر کے قید کی سزا مقرر کی۔ مثلاً عادی شرابیوں کو شرعی حد جاری کرنے کے بعد جیل میں بھیجا جانے لگا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قائم کردہ محکمہ پولیس کے آفیسر کو ”صاحب الاحداث“ کہتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کو بحرین میں پولیس کے اختیارات دیے، تاکہ دکاندار ناپ تول میں دھوکا نہ دیں، کوئی آدمی سڑک پر مکان نہ بنا لے، جانوروں پر زیادہ بوجھ نہ لادا جائے، علانیہ شراب نہ بکے۔ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ بن عتبہ رضی اللہ عنہ کو بازار کی نگرانی کےلئے مقرر کیا۔
کئی سوبرس گزرگئے یہی محکمے اپنے فرایض سرانجام دے رہے ہیں اورقانون نافذ کرنے والے ادارے پاکستان کے وہ ادارے ہیں جن کو آئین پاکستان نے حق دیا ہے کہ وہ پاکستان کے سرزمین پہ قانون کا نفاذ کریں۔پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے بہت سے ادارے شامل ہیں جن میں سول ادارے بھی ہیں اور فوجی بھی۔فوج اداروں میں پاک فوج،پاک فضائیہ اور پاک بحریہ شامل ہیں جو سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں،قدرتی آفت میں متاثرین کی امداد،وغیرہ کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ دیگر نیم فوجی ادارے بھی قانون نافذ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ان نیم فوجی داروں میں فرنٹیئر کانسٹبلری،سرحد کور،پاکستان رینجرز شامل ہیں۔
پاکستان رینجرز کو ملک کے دو مشرقی صوبوں یعنی پنجاب اور سندھ میں ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں اسلئے اس ادارے کے مزید دو شاخ بنائے گئے ہیں یعنی پنجاب رینجرز اور سندھ رینجرز۔اسی طرح سرحد کور اور فرنٹیئر کانسٹبلری کو ملک کے مغربی صوبوں یعنی صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں اسی اداری کو مزید دو شاخوں میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی پختونخوا کانسٹبلری اور بلوچستان کانسٹبلری۔ اس کے علاوہ ہر انتظامی اکائی میں مختلف پولیس فورسز بنائیں گئے ہیں جن میں خیبر پختونخوا پولیس، پنجاب پولیس،سندھ پولیس،بلوچستان پولیس،آزاد کشمیر پولیس اور گلگت بلتستان پولیس شامل ہیں۔پولیس فورس میں ایک الگ شاخ بھی بنایا گیا ہے جسے پولیس قومی رضا کار کہا جاتا ہے،اس فورس کا مقصد تمام صوبوں میں جہاں ضرورت پڑے وہاں کام کرنا ہے۔ایئرپورٹ پولیس کا کام ایئرپورٹ کے امور سرانجام دینا ہے اسی طرح موٹروے پولیس اور قومی شاہراہ پولیس کا کام سڑکوں کی حفاظت ہے۔ تحقیقات کیلئے وفاقی ادارہ تحقیقات(ایف آئی اے) اور دیگر تحقیقاتی ادارے موجود ہیں۔مخابرات اور ملک کے بیرون خطرات سے نمٹنے کیلئے بھی مخابراتی ادارے (جیسے آئی ایس آئی،وغیرہ) موجود ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس سمیت سکیورٹی عوام کی تحفظ کیلئے قائم کئے گئے ہیں اور پاکستانی قوم کو اپنی سکیورٹی فورسز پر فخربھی کرتی ہے ،لیکن پولیس پر عد م اعتماد صرف سیاسی مداخلت کی وجہ سے ہے اوررہے گا ۔ عوام کو شکوہ ہے کہ کئی برس سے حکمرانوں کے سامنے پولیس گردی کا سلسلہ جارہے جس پر حکمرانوں نے خاموشی اختیار کررکھی ہے ۔ پولیس کی وردی تبدیلی کی بجائے حکمرانوں کو عوام کے تحفظ کیلئے عملی اقدامات کرنے چاہیے ۔ یہی اقدامات حکمرانوں اورعوام کے حق میں ہیں۔