فیصل آباد کی خبریں 28/12/2013

سرکاری سکولوں پر اربوں روپے کے خطیر فنڈز خرچ کئے جارہے ہیں، تدریسی معیار بھی بلند ہونا چاہئے، عبدالجبار شاہین

فیصل آباد (ایچ ایس این) وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کے احکامات کی روشنی میں سرکاری سکولوں میں عدم دستیاب سہولیات کی فراہمی پر اربوں روپے کے خطیر فنڈز خرچ کئے جارہے ہیں لہذا تدریسی معیار بھی بلند ہونا چاہئے اس سلسلے میں محکمہ تعلیم کے افسران سکولوں میں طریقہ تعلیم پر ضرور توجہ دیں تاکہ بچوں کو کوالٹی ایجوکیشن فراہم کی جاسکے۔ یہ بات سیکرٹری سکولز ایجوکیشن پنجاب عبدالجبار شاہین نے کمشنر آفس کے کمیٹی روم میں ڈویژن کے چاروں اضلاع میں محکمہ تعلیم کی مجموعی کارکردگی کا جائزہ لینے سے متعلق منعقدہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہی۔ڈی سی اوفیصل آباد نورالامین مینگل،ای ڈی اوز ایجوکیشن شاہدہ سہیل،نسیم زاہد،محمد منشامیو،توقیر شاہ،ڈی اوز مردانہ وزنانہ،ڈی ایم اوز،ڈپٹی ڈی اوز،اسسٹنٹ کمشنر جنرل مہر شفقت اللہ مشتاق اورمحکمہ تعلیم کے دیگر افسران بھی اس موقع پر موجود تھے۔سیکرٹری سکولز ایجوکیشن نے ای ڈی اوز کو ہدایت کی کہ گرلز سکولوں میں ٹائلٹس، چاردیواریاں، بجلی و پانی اور فرنیچر کی فراہمی کے لئے اضلاع کے ڈی سی اوز اور متعلقہ محکموں سے مکمل رابطہ میں رہا جائے تاکہ کوئی سکول ان بنیادی سہولیات سے محروم نہ رہے۔انہوں نے کہا کہ بعض سکولوں میں سکول کونسلزکے فنڈز بھی ڈی سی اوز کی مشاورت سے سکول کی بہتری کے لئے استعمال میں لائے جائیں۔انہوں نے کہا کہ سکولوں میں اساتذہ ‘طلبہ کی حاضری اور تدریسی معیار کو باقاعدگی سے چیک کریں اس مقصد کے لئے ای ڈی اوز سکولوں کی اچانک انسپکشن کریں اور غیر حاضر ٹیچرز کونوکری سے فارغ کردیا جائے۔انہوں نے کہا کہ بورڈ اور محکمانہ امتحانات میں ناقص کارکردگی کے حامل اساتذہ کاکڑا احتساب ہونا چاہئے اس سلسلے میں کسی قسم کا اثرورسوخ خاطر میں نہ لایا جائے۔سیکرٹری سکولز نے کہا کہ وزیر اعلی پنجاب محمد شہباز شریف سکولوں میں بچوں کے داخلہ کو چیک کرانے کے لئے تھرڈ پارٹی سے انسپکشن کرا رہے ہیں لہذا انرولمنٹ مہم کے دوران سکولوں میں داخل ہونے والے بچے کسی صورت ڈراپ نہیں ہونے چاہیں ۔انہوں نے واضح کیا کہ پنجم اور ہشتم کے محکمانہ امتحانات میں نقل کے رحجان کاخاتمہ کرنے کے لئے ڈی ای اوز اور اے ای اوز کو متحرک کریں اوراگر کسی سنٹر پر نقل ہوتی پائی گئی تو متعلقہ علاقے کا ایجوکیشن آفیسر ذمہ دارہوگا۔انہوں نے سوفیصد نتائج کے حصول کے لئے سکول سربراہان کو بچوں کے ہفتہ وار تحریری ٹیسٹ لینے کاپابند بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ میٹرک اورانٹر کے امتحانات میں ہیڈ،سائنس اور کمپیوٹرٹیچرز کوڈیوٹی سے مستثنیٰ رکھنے کے لئے سیکرٹری بورڈز کو تحریر کیاجائے گا تاکہ اساتذہ کی سوفیصد توجہ بچوں کو علم کے زیور سے آراستہ کرنے پر مرکوز رہے۔انہوں نے محکمہ تعلیم کے افسران سے کہا کہ وہ اپنے ذمے ٹاسک کو محنت،لگن اور دیانتداری سے انجام دیں اس سلسلے میں کسی قسم کی کوتاہی،عدم توجہی قطعاً برداشت نہیں کی جائے گی۔ای ڈی اوز نے سکول وزٹس،مختلف بے قاعدگیوں/بے ضابطگیوں اورفرائض سے کوتاہی کے مرتکب تدریسی وغیر تدریسی سٹاف کے خلاف کی گئی کارروائیوں اوراپنے اپنے اضلاع میں محکمہ تعلیم کی مجموعی کارکردگی سے بھی آگاہ کیا۔
————————–
——————–

ڈرائیورز سڑکوں پر لائن لین کی پابندی کو یقینی بنائیں, ٹریفک ایجوکیشن کے ذریعے ٹریفک نظم وضبط کو بہتر بنارہے ہیں، عمران کشور

فیصل آباد (ایچ ایس این) ڈرائیورز سڑکوں پر لائن لین کی پابندی کو یقینی بنائیں رکشہ ڈرائیورز سڑکوں کی انتہائی بائیں جانب چلیں اوراوورلوڈنگ سے گریز کریں۔انفورسمنٹ کے ساتھ ساتھ ٹریفک ایجوکیشن کے ذریعے ٹریفک نظم وضبط کو بہتر بنارہے ہیں۔ان خیالات کااظہار چیف ٹریفک آفیسر عمران کشورنے رکشہ ڈرائیورز ورکشاپ میں پیش کیے جانے والے مسائل کاجائزہ لیتے ہوئے کیا۔چیف ٹریفک آفیسر کی خصوصی ہدایت پر ٹی ایم اے ہال میں ڈرائیورز ورکشاپ سے ڈی ایس پی ٹریفک ہیڈ کوارٹر خرم شہزاد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عنقریب رکشہ ڈرائیورز کے مسائل کے لئے ایک بھرپور سروے بھی کروایا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ڈرائیورز ٹریفک قوانین کی پاسداری کریں اور رکشہ جات میں ٹیپ ریکارڈرز چلانے سے بھی گریز کریں۔اس موقع پر انچارج ایجوکیشن یونٹ انسپکٹر عبدالخالق اور ٹریفک وارڈن محمد اسماعیل نے بھی ڈرائیورنگ لائسنس کی اہمیت اور مناسب رفتار سے ڈرائیونگ کرنے پر زور دیا۔اس ورکشاپ میں میاں محمد اعجاز پاسبان رکشہ یونین نے بھی خطاب کرتے ہوئے ڈرائیورز کی طرف سے یہ عہد کیا ہے کہ وہ ٹریفک پولیس کی جانب سے دی گئی تمام ہدایات پرعمل پیرا ہوں گے۔اس ٹریفک ورکشاپ میں شہر بھر سے کثیرتعدادمیں رکشہ ڈرائیورزنے شرکت کی اور اس ٹریننگ ورکشاپ کاانعقاد سٹی ٹریفک پولیس کے ایجوکیشن یونٹ نے کیا ہے۔

————————–
——————–
CPOفیصل آباد ڈاکٹر حیدر اشرف کی تھانہ ترکھانی میں کھلی کچہری ،پو لیس کے ستائے لوگ پھٹ پڑے، فوری کاروائی کاحکم

پولیس میں موجود کالی بھیڑوں کی لسٹ مرتب کی جا رہی ہے ۔کرپشن ہرگز برداشت نہ کی جائیگی، سی پی او

فیصل آباد ( ایچ ایس این)CPOفیصل آباد ڈاکٹر حیدر اشرف نے تھانہ ترکھانی کے علاقہ چک نمبر228گ ب نارا ڈاڈا کے گورنمنٹ ہائی سکول میں کھلی کچہری کا انعقاد کیا کھلی کچہری میں SPصدر رانا شجاعت علی، DSPسمندری محمد امین بھٹی اور سرکل سمندری کے تمامSHO,s بھی شامل تھے ۔کھلی کچہری کا آغازقاری طارق احمد نے تلاوت کلام پاک سے کیا۔ جس کے بعد مختلف افراد نے اپنے اپنے مسائل CPOکے گوش گزار کئے جن کو سن کر موقع پر فیصلے کئے گئے۔ چک نمبر50گ ب کے رہائشی احمد علی نے بتلایا کہ اس کی بیوی کو مارا پیٹا گیا مگر مقدمہ درج نہ ہوا ہے۔CPOفیصل آباد نے وقوعہ کا فوری مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا۔ محمد اسماعیل نے بتلا یا کہ اس کے مویشی چوری ہوئے تھے ۔ پولیس نے بندہ پکڑ کر چھوڑ دیا ۔ جس پر CPOفیصل آباد نے ایک ہفتہ میں گرفتار کرنے اور وقوعہ کی SPصدر کو انکوائری کر کے رپورٹ بھجوانے کا حکم دیا۔CPOفیصل آباد نے کھلی کچہری سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ میری ساتویں کھلی کچہری ہے ۔ مجھے اس بات سے بہت تکلیف ہوتی ہے کہ میرا بزرگ بھائی بہن صرف ایک درخواست مارک کروانے کیلئے اپنی تمام کمائی خرچ کر کے میرے دفتر آئے اس کے حل کیلئے بہتر یہ ہے کہ میں آپ کے گھر گائوں اور علاقہ میں آکر آپ کی بات سنوں اور انصاف دینے کی کوشش کروں ۔ CPOفیصل آباد نے عوام کی رائے سننے کے بعد اس بات پر اطمینان کا اظہار کیاکہ آپ کا فیڈ بیک میرے لئے بہت ضروری ہے ۔ جس کے زریعہ اب پولیس سڑکوں پر گشت کرتی نظر آرہی ہے علاقہ کے لوگوں کی خواہش اور ممبر پارلیمنٹ کی نشاندہی پر CPOفیصل آباد نے تھانہ ترکھانی کی گاڑیوں کی فوری رپئیر کا حکم جاری کیا اور چک نمبر208گ ب میں نئی پولیس چوکی کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے ایک تھانیدار اور 4سپاہی تعینات کئے جانے کاحکم جاری کیا اور انہیں ایک مزید موٹر سائیکل ایشو کرنے کی ہدایت کی تا کہ عوام کی جان و مال کی حفاظت کیلئے مزید مئوثر حکمت عملی کو اپنایاجا سکے۔
————————–
——————–

ٹیکسٹائل پروسیسنگ یونٹس میں ٹریٹمنٹ پلانٹس کی عدم تنصیب پر فیکٹریاں بند کر دینے کے نوٹسز صنعتی امن کو تباہ کر دیں گے،خالد حبیب شیخ

فیصل آباد (ایچ ایس این) پنجاب اسمبلی میں مذموم قرار داد پاس ہونے پر محکمہ ماحولیات کی جانب سے فیصل آباد کے ٹیکسٹائل پروسیسنگ یونٹس کو ٹریٹمنٹ پلانٹس کی عدم تنصیب پر فیکٹریاں بند کر دینے کے نوٹسز صنعتی امن کو تباہ کر دیں گے، ٹیکسٹائل انڈسٹری پچھلی ایک دہائی سے سخت مسائل سے دو چار ہونے سے ٹیکسٹائل مصنوعات کی پروڈکشن اور اسکی ایکسپورٹ کا گراف کافی نچلی سطح پر آ گیا ہے۔ ایسے حالات میں اس طرح کے نوٹسز صنعتوں کے لئے مناسب نہیں کیونکہ ٹریٹمنٹ پلانٹ اپنے حجم اور قیمت کے باعث کسی فیکٹری کے لئے لگانا ممکن ہی نہیں، جبکہ فیصل آباد کے تمام پروسیسنگ اداروں نے اپنے طور پر ایسے سسٹم بنا رکھے ہیں،جہاں سے سے نکلنے والا 90فیصد پانی قابلِ استعمال ہو کر ڈسپوزل اسٹیشن کی طرف جاتا ہے ۔ پنجاب اسمبلی کے ارکان کو حقائق کا علم ہی نہیں، آنکھیں بند کر کے اُنہوں نے صنعتی اداروں کے خلاف قرارداد منظور کر لی۔ ان خیالات کا اظہار ریجنل چئیرمین آل پاکستان ٹیکسٹائل پروسیسنگ ملز ایسوسی ایشن خالد حبیب شیخ نے اپٹپما ہائوس میں جنرل باڈی کے ہنگامی اجلاس سے خطاب کے دوران کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ کسی بھی محکمہ کے لئے حقائق سے نظریں چُرانا بہتر نہیں ہوگا۔ محکمہ ماحولیات کو بھی علم ہے کہ کوئی ٹیکسٹائل یونٹ کروڑوں روپے کا پلانٹ نہیں خرید سکتا اور نہ ہی اس کو لگانے کے لئے کسی فیکٹری میں جگہ موجود ہے اور نہ ہی اس کی ورکنگ لاگت قابلِ برداشت ہے۔ اس کا ایک ہی بہترین حل ہے جس کی طرف بارہا توجہ دلائی جا چُکی ہے ، مگر اس طرف کسی کا دھیان نہیں، اُنہوں نے کہا کہ فیکٹریوں کا استعمال شُدہ پانی جس مین ڈسپوزل اسٹیشن پر جمع ہوتا ہے وہاں گورنمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ ٹریٹمنٹ پلانٹ نصب کر ے ۔ اس اقدام سے ٹیکسٹائل اداروں کو بے جا اُلجھنوں سے نجات ملے گی اور وہ اپنی تمام تر توجہ کاروبار میں لگا کر ٹیکسٹائل مصنوعات کی ایکسپورٹ میں اضافہ کر سکیں گے جس سے ملکی معیشت کو استحکام حاصل ہوگا۔ پنجاب اسمبلی سے منظور ہونے والی قرارداد بھی یکطرفہ عمل ہے جس میں بدنیتی کا عنصر شامل ہے اور یہ کسی بڑی سازش کا حصہ دکھائی دیتی ہے، جس میں کسی ایک پہلو کو اُجاگر کر کے اسے منظور کروایا گیا۔ اُنہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ہماری بیوروکریسی میں لکیر پر لکیر کا عمل اس حد تک بڑھ چُکا ہے کہ آج 66برس گز ر جانے کے باوجود ہم لوگ دائروں میں سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ ٹیکسٹائل اداروں کا استعمال شُدہ پانی صاف ہو کر ڈسپوزل اسٹیشن کی طرف جاتا ہے جہاں سے جا کر وہ ڈرین میں گرتا ہے اور یہ پانی فصل کی کاشت کے قابل ہوتا ہے تو لوگ اسے اپنی فصلوں کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ فیصل آباد میں واقع ٹیکسٹائل پروسیسنگ ادارے جہاں سیوریج کی مد میںکثیر اخراجات ادا کرتے ہیں وہیں زمین سے پانی نکالنے پر علیحدہ چارجز واسا کو دینا پڑتے ہیں ۔ دُہرے اخراجات کے بعد انہیں ٹریٹمنٹ پلانٹ کے لئے مجبور کرنا غیر اخلاقی اور غیر منصفانہ ہے۔ محکمہ ماحولیات کی جانب سے وقتا فوقتا نوٹسز کا اجراء صنعتکاروں کے لئے ٹینشن کے سوا کچھ نہیں ۔ حکومتِ پنجاب کوچاہیے کہ وہ ٹیکسٹائل پروسیسنگ انڈسٹری کے مالکان اور پنجاب اسمبلی میں مذموم قرار داد پیش کرنے والوں کو آمنے سامنے بٹھا کر مناظرہ کر وائیں تاکہ حقائق بھی سامنے آئیں اور مذموم سازشوں سے بھی پردہ اُٹھے۔ پنجاب حکومت فیصل آباد میں مشترکہ ٹریٹمنٹ پلانٹ فیصل آباد سے گزرنے والی دو ڈرینز ،مدھوآنہ اور پہاڑنگ پر لگا کر مسائل کو حل کرے جو کہ پنجاب حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ اجلاس میں شیخ محمد امجد، رضوان اشرف، اور محمد سعید شیخ نے بھی پنجاب اسمبلی کی مذموم قرار داد پر اظہارِ خیال کیا۔
————————–
——————–