یہ لاہور کی مصروف شاہراہ تھی ٹریفک سست روی کا شکار تھی میری نظر سگنل پر جا رکی جہاں ٹریفک پولیس کے جوان ایک رکشہ ڈرائیور اور چند موٹر سائیکل سواروں کو روک کر چالان کرنے میں مصروف تھے مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے چند دنوں سے ٹریفک وارڈنز کو ٹریفک بحال رکھنے کی ڈیو ٹی کی بجائے صرف اور صرف عوام کے چالان کرنے کے فرائض سونپ دیے گئے ہوں جسے وہ پوری ایمانداری سے سر انجام دے رہے ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے چند دن پہلے ہمارے پیارے دوست بدر سعید بتا رہے تھے کہ ان کو ٹریفک وارڈن نے روکا اور کاغذات کا مطالبہ کیا انھوں نے شریف شہری ہونے ثبوت دیتے ہوئے کاغذات ٹریفک وارڈن کے سپرد کر دیے جس پر ٹریفک وارڈن نے ان کا چالان کر دیا اور رسید پر وہ جرم لکھ دیا جو ان سے سرزرد ہی نہیں ہوا تھا پوچھنے پر آفیسر بدتمیزی پر اتر آیا جس پر انھوں نے وہا ں سے جانے میں ہی عافیت جانی۔کل ہی کی بات ہے میں نے ایک ٹریفک پولیس آفیسر سے پوچھا حضور آجکل کچھ زیادہ ہی چالان نہیں ہو رہے تو جواب آیا ”سر جی آخری دن ہیں سمجھ جائیں۔ یہ جو آخری دنوں والی بات ہے خاصا لمبا چوڑا مفہوم رکھتی ہے۔
یار لوگ کہہ رہے ہیں ہمیشہ سے سال کے آخری دنوں میں چالانوں کی سپیڈبڑھا دی جاتی ہے تاکہ ریونیو کی کمی کو پورا کیا جا سکے اور اس کام میں عوام کو حکومت کا مدد گار بنناچاہیئے اگر عوام سیدھی طرح سے نہیں تعاون کر ے گی تو جناب انگلی تو ٹیرھی کرنا پڑے گی نا۔۔!ایک طرف تو آپ عوام کو کہتے ہیں کہ عوام ٹریفک پولیس کے ساتھ تعاون کریں تو اب اس صورتحال میں یہ کیسے ممکن ہو گا کہ آپ کے جوان عوام کا استحصال کریں اور عوام ٹریفک پولیس زندہ باد کے نعرے لگائیں جب ان سے پوچھا جائے تو بدلے میں وارڈن اپنی ہی کسی غلطی کی نشاندہی پر شہریوںکو گالیاں بکیں۔
وطن عزیز کے ہر محکمے کا کم و بیش یہی حال ہے سرکاری ملازمین کا رویہ عام آدمی کے ساتھ عجیب قسم کا ہے۔لیکن ٹریفک پولیس کی جانب سے کچھ زیادہ ہی ناروا رویہ اختیار کیا جا رہا ہے۔آجکل کیپٹن سہیل چوہدری سٹی ٹریفک پولیس آفیسر لاہور ہیں ان کی نیک نامی کی شہرت کافی دور تک پھیلی ہوئی ہے ہے لیکن ناجانے کیوں اب تک یہ سنگین مسئلہ ان کی نظروں سے اوجھل ہے۔
Traffic Police Pakistan
جناب سی ٹی او صاحب کسی دن شہر کا دورہ کریں تو صورت حال آپ پر واضح ہو جائے گی۔ آپ کو نہ صرف یہ کہ اکثر وارڈن ٹولیوں کی صورت گپیں ہانکتے نظر آئیں گے یا پھر کسی ”شکار ”کی تلاش میں سگنل سے کہیں دور چھپے کھٹرے ملیں گے۔ اب تو اکثر جگہ باقاعدہ کرسیاں بھی رکھ دی گئی ہیں۔ اسکے برعکس اشارے لاوارث اور ٹریفک نظام درھم برھم نظر آئے گا۔ المیہ یہ ہے کہ چالان پورے کرنے کے چکر میں اکڑ وارڈنز نہ صرف یہ کہ بے گناہوں کو بھی” رگڑا” لگا رہے ہیں بلکہ بدتمیزی اور گالی گلوچ ان کی عادت بن چکی ہے۔ ہم جو کہ وارڈنز سسٹم کی تعریفوں کے پل باندھا کرتے تھے آج اپنے ہی الفاظ اور کالموں پر شرمندہ نظر آتے ہیں۔ آج کل جو کچھ ہو رہا ہے عوام اس سے تنگ آ چکے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے لاہور ٹریفک پولیس کی جانب سے اپنایا گیا جارحانہ اور غیر ذمہ دارانہ رویہ جو کہ اب نہ صرف باعث تشویش ہو چکا ہے بلکہ محکمہ کی اصول پسندی اور قابلیت پر بھی انگلیاں اٹھنے کا باعث بن رہا ہے۔ اس سلسلے میں عام شہری بھی اب یہی رائے قائم کرتا چلا جا رہا ہے کہ محکمہ اپنے فرائض کی بجائے چالان پورے کرنے کی جانب مائل ہے۔
جناب عالی! گزارش یہ ہے کہ بجلی، گیس، لوڈشیڈنگ اور مہنگائی جیسے گھمبیر مسائل میں مبتلا عوام کو اتنی اذیت میں مت ڈالیے۔۔۔ اس کا نتیجہ بہت دردناک ہوتا ہے۔ ظلم تو پھر ظلم ہے جب حد سے بڑھ جائے تو مٹ ہی جاتا ہے۔۔۔۔! عوامی ردعمل بڑے عجیب و خطرناک ثابت ہوتے ہیں لاوا جب پھٹتا ہے تو خوب تباہی پھیلاتا ہے۔
وارڈنز کی جانب سے گالی گلوچ اور ناجائز چالان کا سلسلہ ر وکنے کے لئے اقدامات کریں تاکہ ٹریفک وارڈنز چالان اور صرف چالان کی بجائے ٹریفک کا بہایا رواں دواں رکھنے کی جانب متوجہ ہو سکیں۔
ہر شہری کی عزت نفس کو ملحوظ خاطر رکھا جائے ایسے تربیتی سیشن منعقد کروائے جائیں جن میں ٹریفک پولیس وارڈنز کو بتایا جائے کہ ہر شہری برابر ہے چاہے وہ لمبی گاڑی والا ہو یا کوئی رکشہ ڈرائیور۔۔۔ٹریفک پولیس لائن میں اخلاقی و تربیتی نشستوں کا اہتمام کریں۔ ٹریفک پولیس کے حالیہ رویے، بدتمیزی اور عوام کو درپیش مسائل کے بارے میںغور فکر کیجیے خدارا! فائل ورک کی بجائے عملی اقدامات کی طرف آئیں۔مجھے یقین ہے کہ آپ خلق خدا کی آواز ضرور پہچانیں گے۔چند دن پہلے آپ کے محکمے کے سائن بورڈ کی عبارت پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا خوبصورت عبارت کچھ یوں تھی پولیس کا ہے کام مدد آپ کی۔۔۔۔