تحریر: محمد ممتاز شاکر محکمہ پولیس میں سپاہی سے لے کر تقریباً ہر بڑے افسر تک بتدریج پیسے بٹورنے کے چکر میں رہتا ہے۔ منتھلی کے نام پرہر تھانہ کم و بیش اپنا حصہ وصول کرتا ہے۔ اکثر تھانیدار تھانے کی حدود میں ہی منتھلی طے کرلیتے ہیں۔ رشوت، بد عنوانی میں ملوث ان اہلکاروں کے تعلقات ایم این اے، ایم پی اے اور دیگر اعلیٰ شخصیات سے ہوتے ہیں۔
جرم ثابت ہونے کے باوجود اثر و رسوخ کے بل بوتے پر نہ صرف اپنے عہدے کے بلکہ اپنی پسند کے تھانے میں ڈیوٹی سر انجام دیتے ہیں۔ملک کے بیشتر باشندے پولیس کی کارگردگی اور ان کے مطالبوں کی وجہ سے اس قدر پریشان ہیں کہ اکثریت کی یہی دعا ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی دشمن کو بھی تھانے کی منہ نہ دکھائے۔ شاید وہ جانتے ہیں کہ حوالدار سے لے کر بڑے آفسر تک سبھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کیلئے تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔بار بار معطل کئے جانے کے بعد بھی وہ حاضر لائن ہو جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے تھانوں کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ نوکری سے برخاست اور پھر بحال ہونے کے بعد بھی چند ضمیر فروش اپنا دین وایمان فروخت کر کے دن دُگنی رات چوگنی دولت کما رہے ہیں۔محکمہ پولیس میں سپاہی سے لے کر تھانیدار، سب انسپکٹر ، انسپکٹر غرض ہر اہلکار بتدریج پیسے بٹورنے کے چکر میں رہتا ہے۔ اُن لوگوں نے منتھلیوں کے نام پر بھی لاکھوں بٹورے اور بٹور رہے ہیں۔ ضلع میانوالی میں بھی یہ دھندہ عروج پر ہے۔
تھانیدار شہر کے مختلف علاقوں سے منتھلی وصول کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ محکمہ پولیس کے ایس ایچ او کی زیر نگرانی جو ا، جسم فروشی، منشیات فروشی کے اڈے چلائے جا رہے ہیں۔اس دھندے میں ملوث افراد سے منتھلی وصول کی جاتی ہے ۔اکثر سب انسپکٹر تھانیدار کی حیثیت سے اپنے کام میں دلچسپی لیتے ہیں۔اُن کی یہ دلچسپی اپنے مفادات کی وجہ سے ہوتی ہے کیونکہ تھانیداروں کو بہت سے جرائم کی اُن سے پہلے خبر ہوتی ہے۔ اکثر تھانیدار تھانے کی حدود میں ہی مک مکا اور منتھلیاں طے کر لیتے ہیں اور کچھ عرصے بعد وہ ایس ایچ او اورانسپکٹر کی حیثیت سے اپنے فرائض ادا کرنے لگ جاتے ہیں۔ جس طرح وہ اپنے عہدے تک پہنچتے ہیںاُسی طرح ان کی منتھلیوں میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ محکمہ پولیس کے اہلکار ایک دوسرے کے اڈے اور بھید جانتے ہیں اور ایک دوسرے کے کام سے چشم پوشی کرتے ہوئے اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔ ضلع میانوالی کے علاقہ واں بھچراں کے عوام تین پولیس آفسران کا نام بہت عزت واحترام سے لیتے ہیں،ایسے ہی نہیں لیتے بلکہ وہ اس قابل بھی ہیں ان میں ایس ایچ او مہر خان بہت ہی قابل اور ایماندار آفیسر تھے جوکہ اب ریٹائرڈ ہوچکے ہیں ،سابق ایس ایچ او عزیز احمد گجر،سب انسپکٹر محمد رمضان سگو صاحب جنہوں نے علاقہ سے جرائم پیشہ افراد کا خاتمہ کرکے علاقہ واں بھچراں کو امن کا گہوارہ بنا دیا تھا۔
Police Department
ایس ایچ او عزیز احمد گجر کا تبادلہ ہوتے ہی تھانہ واں بھچراں پر ٹاؤٹوں نے قبضہ کرلیا اور سرعام تھانے کے دروازہ پر بیٹھ کر شہریو ں کو لوٹ رہے ہیں ،تھانہ واں بھچراں میں ایس ایچ او سے لے کر حوالدار تک تمام پولیس اہلکار وں نے رشوت کا بازار گرم کررکھا ہے ،ایس ایچ او کے خصوصی تعاون سے تھانہ واں بھچراں کا کمپیوٹر آپریٹر محمد عمران محرر بن کرعوام کو لوٹ رہاہے اور جناب عمران صاحب کی ڈیمانڈ ہوتی ہے کہ کولڈ ڈرنک کی بوتل ،کڑاہی گوشت یا پھر نقد رقم یہ مل جائیں تو کام ہوجاتا ہے اگر کوئی غریب ڈیمانڈ پوری نہ کرسکے تو تھانے کے چکر کاٹ کاٹ کر خاموش ہوجاتا ہے۔
تھانہ واں بھچراں کے تمام پولیس اہلکار تقریباً روزانہ بڑے بڑے ہوٹلوں پر کھانا کھانے جاتے ہیں ،بھئی کیوں نہ کھائیں کونسا ان کا خرچہ ہے، عوام کا خرچ ہی تو ہے پھر کیوں نہ کھائیں وہ کھانا بڑے بڑے ہوٹلوں پر۔۔۔یہاں پہنچ کر مجھے کچھ یاد آگیا کہ ایک فقیر آتا ہے جس کی عمر تقریباً40سے45سال ہے ،وہ بالکل صحت مند ہے اور اسے نہ کوئی بیماری ہے نہ کوئی تکلیف ،اب پچھلے دنوں کی بات ہے جب گندم کی کٹائی جاری تھی وہ مانگنے کیلئے ایک دوکاندار کے پاس گیا تو دوکاندار نے اس کو کہا کہ آپ میری گندم کاٹ دیں میں آپکو روزانہ کا1000روپے دونگا فقیر نے پتا ہے کیا کہا اس دوکاندار کو ،فقیر نے ہنستے ہوئے کہا کہ سرکار کمانا آپ نے ہے اور کھانا ہم نے ہے ۔۔۔پولیس نے بھی کچھ اسی طرح کا اعلان کررکھا ہے کہ کمانا لوگوں نے ہے اور کھانا ہم نے ہے ۔ آیئے اب اصل بات کی طرف آتے ہیں ،تھانہ واں بھچراں کی حدود میں چوری ،ڈکیتی کی وارداتوں میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے اور آئے دن کبھی کسی کے گھر کی چوری ہورہی ہے تو کبھی کسی کی دوکان کی ۔اس طرف مجال ہے کہ پولیس توجہ دے ۔غریب شخص جس کی ساری زندگی کی جمع پونجی چور لے جاتے ہیں وہ درخواست بھی نہیں دیتا تھانے کیونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ جو بچا ہے وہ پولیس لوٹ لے گی ،اور اگر بیچارا کوئی غریب تھانے میں غلطی سے درخواست دے بھی دے تو اس کی تو شامت آجاتی ہے ،بیچارے غریب کا جو کچھ بچا ہوتا ہے وہ بھی پولیس لوٹ لیتی ہے ۔لیکن تعجب کی بات تو یہ ہے کہ اتنے اچھے ،ایماندار اور فرض شناس ،اصول پسند آفیسر جناب ڈی پی اومیانوالی سرفراز وِرک کے ہوتے ہوئے بھی واں بھچراں کی عوام کا یہ حال ہورہاہے ،جناب ڈی پی او صاحب اتنی خاموش ٹھیک نہیں ہوتی۔
ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پولیس نے ڈی پی اومیانوالی صاحب کو جھوٹ پر مبنی کہانی سناکر ورغلا لیا ہے اور انہیں بتایا گیا ہے کہ یہ جوخبریں لگ رہی ہیں وہ غلط ہیں ۔کیوں ڈی پی او صاحب کیا میں سچ کہہ رہاہوں ۔ڈی پی اومیانوالی نے اتنی چوری ڈکیتی کی وارداتوں کے بعد بھی خاموشی اختیار کررکھی ہے جوکہ سمجھ سے بالاتر ہے ۔ہاں ایک بات اور کرنا چاہتاہوں کہ واں بھچراں تھانہ میں موجود عملہ کے ریکارڈ چیک کئے جائیں کہ پولیس اہلکار کتنے عرصہ سے تعینات ہیں ،جو اہلکار ایک سال سے زائد عرصہ سے تعینات ہیں تو ضرور ان کے کسی ایم این اے ، ایم پی اے یا کسی اعلیٰ شخصیت سے تعلقات ہیں جو اپنا اثروسوخ استعمال کرکے تھانہ میں کئی عرصہ سے تعینات ہیں ۔ تھانہ واں بھچراں پولیس جو ناجائز دھندہ کرنے والوں کی خدمت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہے۔
حد تو یہ ہے کہ تھانے میں حقدار کے ساتھ ناانصافی معمول کا حصہ ہے۔اور تھانہ واں بھچراں کی پولیس ” سب اچھا ہے” کی رپورٹس دینے میں پیش پیش ہے۔میں ڈی پی اومیانوالی صاحب کو ایک مشورہ بھی دینا چاہوں گا شاید ڈی پی او صاحب اس پر عمل کرلیں ۔جناب ڈی پی او صاحب ایس ایچ او سے لے کر عام کانسٹیبل تک ہر اہلکار کا تین ماہ کے بعد تبادلہ کردینا چاہیے تاکہ پولیس اہلکار عوام کو نہ لوٹ سکیں ۔امید کرتاہوں کہ ڈی پی اومیانوالی صاحب میری ان باتوں پر غور فرمائیں گے اور تھانہ واں بھچراں میں ٹاؤٹوں کا خاتمہ کرینگے اور علاقہ کو امن کا گہوارہ بنانے کیلئے کردار ادا کرینگے رشوت خور اہلکاروں کیخلاف ایکشن لیں گے۔