مظفر گڑھ (جیوڈیسک) شہر سے 45 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع روہیلاں والی کےقریب جڑھ رتھیب میں پولیس نے ایک شخص کو بارہ برس کی بچی کے ساتھ شادی کرنے کی کوشش پر گرفتار کر لیا۔
پینتس سالہ منیر احمد ایک بارہ سال کی بچی آسیہ سے شادی کرنے جارہا تھا۔ ایس ایچ او منیر احمد کا کہنا ہے کہ انہیں ایک مقامی شخص نے بتایا کہ کچھ لوگوں نے ایک کم عمر لڑکی کے ساتھ منیر احمد کی شادی کا انتظام کیا تھا، جس نے حال ہی میں اپنی پہلی بیوی کو طلاق دی تھی۔
منیر احمد کی پہلی بیوی کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ آسیہ کی ممانی ہے۔ لڑکی کے والدین نے اسے منیر احمد کے ہاتھوں مبینہ طور پر فروخت کردیا تھا۔ پولیس نے لڑکی، اس کے والدین اور منیر احمد کی گرفتاری کے لیے چھاپہ مارا، لیکن منیر احمد فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ پولیس نے مقدمہ درج کرکے منیر احمد کی گرفتاری کے لیے ایک ٹیم تشکیل دے دی ہے۔
یاد رہے کہ اسی دوران اس ڈسٹرکٹ میں بچوں کی شادی کی رسم کے خاتمے کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے رہنما ایف پی اے پی کی جانب سے ایک سیمینار کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس سیمینار میں سول سوسائٹی کے اراکین، وکلاء، مذہبی شخصیات، میڈیا کے نمائندوں اور سیاستدانوں نے شرکت کی۔ انہوں نے بچوں کی شادیوں پر پابندی کے ایکٹ (سی ایم آر اے) 1929ء پر تبادلۂ خیال کیا۔
اگرچہ سی ایم آر اے میں بچوں کی شادی کو غیرقانونی قرار دیا گیا ہے، لیکن اس ایکٹ کے تحت دی جانے والی سزائیں بہت معمولی نوعیت کی ہیں۔ اس سیمینار کے ایک مقرر شیخ عبدالباسط ظہیر نے کہا کہ بچوں کی شادیاں بڑے پیمانے پر کی جارہی ہیں، اور لڑکیوں کو اس کا شکار بنانے میں رسوم و رواج نے تقویت فراہم کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں ازدواجی ریپ پر کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ سی ایم آر اے پر نظرثانی اور اس کو مزید سخت بنانے کے لیے ملک بھر میں میڈیا کی مدد کے ساتھ سول سوسائٹی اجتماعی طور پر آواز بلند کرے۔ شیخ عبدالباسط ظہیر نے کہا کہ لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کی شادی کے لیے کم سے کم عمر 18 سال کرنے کی بھی حمایت کی جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ زیادہ سے زیادہ نتائج حاصل کرنے کے لیے قومی اسمبلی کے اراکین اور صوبائی وزراء کی شمولیت کے ساتھ آگاہی کی ایک مہم شروع کی جانی چاہیٔے۔ بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی کو کم کرنے کے لیے ایک مؤثر طریقہ کار تیار کرنے کے لیے صوبائی حکام سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
آخر میں شرکاء نے ایک قرارداد منظور کی، جس میں کہا گیا تھا کہ حکومت کو سی ایم آر اے 1929ء میں ترمیم کرنی چاہیٔے اور اس قانون کا سختی سے نفاذ بھی کرنا چاہیٔے۔