پولیس راج

Police

Police

تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
میرے سامنے بیٹھا نوجوان ڈاکو پولیس کے ہاتھوں ظلم و بربریت کی جو داستان سنا رہا تھا، اُس کا ہر لفظ خنجر کی طرح میرے دل کے ٹکڑے ٹکڑے کر رہا تھا، ظلم زدہ جوان آتش فشاں کی طرح پھٹ رہا تھا، کہ مجھے کس قصور کی سزا دی گئی، انسپکٹر نے میرے اکائونٹ سے ساری رقم نکال لی، میرے لاکھوں روپے ہضم کرنے کے بعد بھی اُس کی ہوس ختم نہ ہوئی، اب آکر اُس نے پھر مجھے اور دوسرے قیدیوں کو مارنا شروع کر دیا، کہ اور پیسے دو اگر تم لوگ پیسے نہیں دو گے، تو تمہیں زندہ جلا دوں گا، وہ ایک ڈیرے سے دوسرے ڈیرے ہمیں جانوروں کی طرح منتقل کرتا رہا، کبھی کسی پرانی فیکٹری میں لے جاتا، جگہوں کی تبدیلی وہ اِس لیے کر رہا تھا، کہ کسی کو شک نہ ہو جائے، دو یا تین دن کے بعد کھانے کو کچھ دے دیتا، وہ ہمیں اتنا ہی کھانے کو دیتا جس سے ہم زندہ رہ سکتے تھے، وہ ہماری سانسوں کے دھاگے کو توڑنا نہیں چاہتا تھا، رات کو کسی کو پکڑتا اُس کو دور دراز جگہ پر لے جاکر اُس کے گھر والوں سے اُس کی بات کراتا فوری فون بند کرتا، اور واپس لے آتا اِس طرح وہ اپنی لوکیشن نہیں دینا چاہتا تھا، اِس طرح وہ چاروں قیدیوں کو نچوڑ رہا تھا، اُس کے ماسڑ پلان میں یہی تھا، کہ اِن سے پیسہ پیسہ لے کر اِن کو دہشت گر د قرار دے کر پولیس مقابلے میں مار دوں گا۔

اس طرح ایک تو اِن بیچاروں کی ڈھیر ساری دولت ڈکار لوں گا، اور پھر حکومت اور DPO،صاحب کی نظر وں میں بھی ہیرو بن جائوں گا، میرے اکا ئونٹ سے لاکھوں روپے نکالنے کے بعد اب اُس نے یہ ضد کی کہ میں دوبئی سے کروڑوں روپے ادھار لے کر اُس کو دوں، یا گھر والوں سے کروڑوں روپے منگوائوں، میں نے کئی بار اُس کے پائوں پکڑے، کہ میرے پاس یہی پیسے تھے، جو تم لے چکے ہو، خدا کی قسم اب میرے پاس کچھ نہیں بچا، اوپر سے 10 دن ہوگئے تھے، مجھے گھر سے نکلے ہوئے، میں ساہیوال سے راولپنڈی کے لیے نکلا تھا، جب میں راولپنڈی نہیں پہنچا ہوں گا، تو میرے بہن بھائی گھر والے تو پاگلوں کی طرح مجھے ڈھونڈ رہے ہوں گے، نہ میرا پتہ اور نہ ہی میری گاڑی کا میرے گھر والے تو روز مرتے ہوں گے، روز جیتے ہوں گے، مجھے چھوڑ دو میں باہر جاکر تمہاری ہر بات پوری کروں گا، پیسوں کا بھی بندوبست کروں گا، اِسی دوران ایک رات اُس نے مجھے خوب مارتے ہوئے لہو لہان کر دیا، اور کہا آج رات میں تمہا ری مہنگی نئی کار کو روڈ کے اوپر جلا کر راکھ کردوں گا اور یہ کہوں گا، کہ تم دہشت گرد تھے، تمہاری کار میں با رود بھرا ہوا تھا۔

اِس لیے تمہاری کار جل گئی، اور جب وہ میری کار کو جلانے کے لیے جا رہا تھا، تو میں نے اُس کی بہت منتیں کیں کہ تم میری کار کو جلا دو لیکن میں جو یتیم بچیوں کی شادی کے لیے بہت سارے کپڑے اور دیگر تحائف دوبئی سے لایا ہوں، جس کو میں دینے راولپنڈی جا رہا تھا، یہ مجھے نکالنے دو یا اُن یتیم لڑکیوں کے گھر پہنچا، دو تو شیطان انسپکٹر بولا تمہار ی یہ چیز کار میں ہی جل کر راکھ ہوگی، اور پھر میری مہنگی کار کو پٹرول چھڑک کر اُس میں بارود رکھ کر شعلوں کے حوالے کر دیا، اِس طرح میری کار راکھ کا ڈھیر بن گئی، کوئلہ بن گئی، اور کُتے نے اعلان کیا کہ دہشت گردوں نے خود کو بارود سے اُڑا لیا ہے، انسپکٹر کی دیدہ دلیری دیکھیں کس طرح وہ اپنا شیطانی کھیل کھیلے جا رہا تھا، اِس طرح ہمیں اُس جلاد کی قید میں اٹھا رہ دن ہوگئے، ان قیامت کے دنوں میں جب یہ ہمیں ایک ڈیرے سے دوسرے ڈیرے لے جاتا تھا، ان میں سے کسی نے پو لیس کو خبر کر دی DPO صاحب کو اس نے بتایا ہوا تھا، کہ مجرم دہشت گرد ہیں، جو آپ کی بھی جان لینا چاہتے ہیں، اِس لیے میں اُن کو تھانے کی بجائے کسی اور جگہ رکھتا ہوں،

انسپکٹر کی دیدہ دلیری تھی، کہ اپنے آفیسر کو بھی بے وقوف بنا رہا تھا، اور پھر ہمیشہ کی طرح رحیم کریم خدا کو ہم پر ترس آگیا۔ DPO صاحب کو اس پر شک ہو گیا، کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے، انہوں نے سختی سے اِس کو حکم دیا کہ دہشت گرد مجرموں کو فوری طور پر تھانے منتقل کرے، اور تم نے تھانے سے باہر نجی جیل میں اِن کو رکھ کر قانون کو تجاوز کیا ہے، اور پھر اٹھارویں دن ہمیں تھانے لا کر بند کر دیا گیا، انسپکٹر کو بھی مجرم کے طور پر ہمارے ساتھ بند کر دیا گیا، اور پھر اگلے دن DPO صاحب خود جیل میں ہم سے ملنے آئے اُن کی نظروں میں ہم ابھی تک دہشت گرد مجرم تھے، انسپکٹر نے ہمیں سختی سے کہا تھا، کہ اگر تم لوگوں نے میرے خلاف ایک لفظ بھی نکالا، تو تمہیں زہر دے کر ہلاک کر دیا جائے گا، تم نے چُپ رہنا ہے، آخر کار DPO صاحب ہمارے پاس آئے ہمیں مجرم سمجھ کر ڈانٹ ڈپٹ کر نکل گئے ہم بے گناہ مجرم ابھی تک ملزم ہی تھے، پھر ہمیشہ کی طرح رحیم خدا کو رحم آیا، اُس کے جوش رحمت کا پیما نہ چھلکا DPO صاحب کا ڈرائیور ہمارے پاس آیا، غور سے میری طرف دیکھنے لگا، میرے قریب آیا تو میں دھاڑیں مار کر رونے لگا، کہ میں بے قصور ہوں میری مدد کرو DPO صاحب واپسی کے لیے گاڑی میں بیٹھ چکے تھے، ڈرائیور گیا اور بولا صاحب جی دال میں کچھ کالا ہے۔

سچ وہ نہیں جو آپ کو بتایا گیا ہے، سچ کچھ اور ہے آپ ایک دفعہ دوبا رہ واپس جائیں اور جاکر خود قیدیوں سے مل لیں، ‘انسپکٹر خطرے کو بھانپ چکا تھا، میرے پاس بیٹھ کر سرگوشیوں میں مجھے کہنے لگا، ایک لفظ بھی زبان سے نہ نکالنا، ورنہ ساری عمر قید میں ایڑیاں رگڑتے مر جائو گے، ‘میں نے تمہارا انتظام کر دیا ہے، DPO صاحب کے واپس جاتے ہیں، تم کو رہا کرکے دو بئی بھیج دوں گا، وہ مجھ سے باتیں کر رہا تھا، کہ DPO صاحب آگئے، انہوں نے جب اِس کو مجھ سے باتیں کرتے دیکھا، تو غصے سے میری طرف دیکھا اور بولے اوئے تم اِس کے دوست ہو، اِس کے ساتھ مل کر جرائم کرتے ہو، DPO صاحب کا الزام سن کر میرے ضبط کا بند ٹوٹ گیا، میں دھاڑیں مار کر رونے لگا، کہ میں تو دو بئی سے آیا ہوں، میں مجرم نہیں ہوں DPO صاحب کے حکم سے ہمیں باہر نکالا گیا، اور اُن کے سامنے پیش کر دیا گیا، اب DPO صاحب نے شیطان انسپکٹر سے پوچھا بتائو، یہ کون ہے اِسکا جرم کیا ہے، انسپکٹر نے میرے خلاف بولنے کی کوشش کی لیکن خدا نے اُس کے منہ سے نکلوا دیا، سر یہ بے گناہ اِس کا کوئی جرم نہیں، اور پھر میں نے بلک بلک کے روکے اپنے اوپر پچھلے اٹھارہ دنوں میں ہونے والے مظالم بتانے شروع کئے، تو DPO صاحب نے اپنا سر پکڑ لیا، اٹھے میرے پاس آئے اور ہاتھ جوڑ کر مجھے کہا، یار مجھے معاف کر دو یہ میرے نیچے کون سا ظلم ہو رہا تھا، کل روز محشر میں کیسے جواب دیتا، DPO صاحب اپنا سر پیٹ رہے تھے، کہ یہ اتنا بڑ ا ظلم اور میں بے خبر اور میں پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا، اور پھر اگلے دن سینکڑوں شہریوں کے سامنے انسپکٹر کو ننگا کرکے خوب مارا گیا، پرانے سے پرانا پاپی پولیس آفیسر بھی کانوں کو ہاتھ لگا رہا تھا۔ اِس دیدہ دلیری سے بندے اغوا کرنا اور ظلم کرنا ہم نے کبھی نہیں دیکھا۔

محترم قارئین آپ اکثر سوال کرتے ہیں، کہ یہ سچا واقعہ ہے تو ہاں یہ سچا واقعہ ہے، جو گجرات شہر میں چھ ماہ پہلے پیش آیا، کالم کی تنگ دامنی کی وجہ سے بہت ساری تفصیلا ت نہیں لکھ سکا، پھر یہ جوان دوبئی چلا گیا، بقول دو بئی جانے کے بعد اُس خوف سے آزاد ہوا، لوگ اپنے وطن آکر آزادی محسوس کرتے ہیں، میں نے دوبئی جا کر محسوس کیا کہ پولیس کی غنڈہ گر دی سے آزاد ہوا، اب 6 ماہ بعد یہ جوان میرے پاس آیا، آج تک اِس کی کوئلہ بنی گاڑی یا متبادل اِس کو نہیں دیا گیا، اِس کے لاکھوں روپے جو اِس کے اکاوئنٹ سے نکالے گئے نہیں دئیے گئے، سپرداری کا ڈرامہ جاری ہے، انسپکٹر کے گھر والے اور اُس کے پولیس والے دوست اِس جوان کو دھمکی آمیز فون کرتے ہیں، جیل میں شیطان انسپکٹر نے کسی کو کہا ہے، کہ یہ میرے حق میں بیان نہیں دے رہا، اس کو قتل کر دو یہ بیچارہ چھپتا چھپاتا، میرے پاس آیا کہ کوئی دعا بتائیں، میرے پیسے کار مجھے واپس مل جائے، اور میں پولیس کے اعلی افسران عدالتوں کے ججوں کی پھرتیاں وزیر اعلی صاحب وزیر اعظم صاحب کی پھرتیاں دیکھ رہا ہوں، جب یہ تمام لوگ منوں مٹی تلے ہوں گے، کیڑے مکوڑے اِن کے نازک جسموں میں ہزاروں سوراخ کریں گے، اِن کے پیٹ پھٹ جائیں گے، سر پھٹ جائیں گے، کوئی اِن کو بچانے والا نہ ہوگا، روز محشر ایسے ہی صاحب اقتدار ہونگے، جن کو کیڑے مکوڑے بنا کر انسانوں کے قدموں میں کچلے کے لیے چھوڑ دیا جائے گا۔

Professor Mohammad Abdullah Bhatti

Professor Mohammad Abdullah Bhatti

تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

ای میل: help@noorekhuda.org
فون: 03004352956
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org

Pakistani Corrupt Police Forces

Pakistani Corrupt Police Forces