تحریر : ڈاکٹر خالد حسین ڈونلڈ ٹرمپ کے اس نعرہ ؛ سب سے پہلے امریکہ ؛ نے سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کی یاد تازہ کردی۔ جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالتے ہی قوم سے اپنے پہلے خطاب میں سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ دیا۔ خطاب میں انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں اپنے گھر کو درست کرنا ہے امت مسلمہ کے معاملات کو درست کرنے کا ہم نے ٹھیکہ نہیں لے رکھا ہمارے ملک کے بہت سے مسائل ہیں جن سے نپٹنے کیلئے ہمیں ایک ہونا ہوگا ،بیرونی محاذ سے توجہ ہٹا کر اندرونی محاذ پر لڑنا ہو گا ۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اپنے ابتدائی صدارتی خطاب میں پرویز مشرف کے نعرہ کو اپنایا لیکن اس میں انہوں نے پوری دنیا سے اسلامی شدت پسندی کے خاتمے کا اعلان کر کے پرویز مشرف سے ہٹ کر پالیسی بنائی۔ان کا اسلامی شدت پسندی کو بزور طاقت ختم کرنے کے اعلان نے پوری دنیا کے امن پسند حلقوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے خطاب نے یہودیوں کے ایجنڈے کو تو آسان کر دیا لیکن باقی دنیا کے لوگوں کے لئے تفکرات کی راہیں کھول دیں اور ہر کسی نے اپنی صف بندی کا ازسر نو جائزہ لینا شروع کر دیا، ڈونلڈ ٹرمپ سے کچھ نیا کی امیدیں رکھے عالمی رہنما بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ ورلڈ امن کے خلاف ڈونلڈ کی تقریر کسی بم سے کم نہیں جب وہ اسلامی شدت پسندی کے قضیئے کو لیکر آگے بڑھیں گے تو یقینا اسلامی دنیا انہیں پھولوں کے ہار تو نہیں پہنائے گی۔ مجاہدین کو عالمی اور علاقائی رہنمائوں نے بڑی مشکل سے قومی دھارے میں شامل کیا اور دوسرے ملکوںکی سرحدوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے سے باز رکھا ہو ا تھا لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر نے اسلام کے نام لیوائوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔
ایران اور لیبیا کی مثال سب کے سامنے ہے کہ انہوں نے عالمی طاقتوں کی کوششوں کے سامنے باہمی اتفاق رائے سے ایٹمی پروگرام سے علیحدگی اختیار کی دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کا عہد کیا ، اپنی میزائل گاہوں کو بیرونی طاقتوں کے معائنہ کیلئے کھول دیا لیکن مغرب نے دونوں سے اپنے مقاصد پورے کرنے کے بعد کیا کیا ؟آپ سب کے سامنے ہے ابھی ایران کا معاملہ زیر بحث تھا اس نے ایٹمی پروگرام ترک کردیا ، لیکن امریکہ نے پھر پابندیاں لگا دیں شکوک و شبہات کی اس فضا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان نے خطہ کو پھر جنگ کے دھانے پر کھڑ ا کر دیا ہے ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق اگر امریکی اپنی مصنوعات ہی خریدیں گے تو کیا باقی دنیا میں امریکہ کی مصنوعات سے بائیکاٹ نہیں کیا جائے گا اپنی قوم کو امریکی مصنوعات کے استعمال کا نعرہ دے کر انہوں نے امریکہ کی معیشت کو سہارا نہیں دیا بلکہ اانہوں نے پوری دنیا سے امریکہ کو ملنے والے زرمبادلہ کی راہیں بند کرنے کی پوری کوشش کی۔ امریکی تنگ نظری کا شکار ہونے مصنوعات کے ممالک بھی ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں گے۔امریکیوں کو احساس نہیں کہ مسلم دنیا کتنی غیرت مند ہے ؟ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔ہسٹری گواہ ہے کہ جب بھی مسلم امہ پر کوئی برا وقت آیا تو انتہائی قلیل تعداد نے وہ کارہائے نمایاں سر انجام دیئے کہ مخالفوںنے دانتوں تلے انگلیاں چبا لیں۔ڈونلڈ ٹرمپ نہ صرف امت مسلمہ کو بیدار کر رہے ہیں بلکہ دیگر اقوام کو بھی جگانے کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔
امریکیوں کو ترجیحی بنیادوں پر کام دینے کے اعلان نے تارکین وطن کو جگا دیا ہے چائنہ کے خلاف ڈھکی چھپی طاقت کی دھمکی کی سٹیٹمنٹ نے بھی کوئی اچھا تاثر نہیں دیا جمہوریت اور امن پسند امریکی حلقے تاریخ میں پہلی مرتبہ سڑکوں پر نکل آئے صدارتی خطاب سے پہلے اور بعد میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ باالخصوص خواتین نے بڑے مظاہرے شروع کر دیئے بلکہ بعض ریاستوں میں یہ مظاہرے پرتشدد شکل اختیار کر گئے اور سرکاری املاک کو بھی نقصان پہنچا۔ صرف یہی نہیں بیرونی دنیا میں انہی حلقوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سے لیکر صدارتی خطاب تک اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔
CIA
میڈیا کے خلاف بیان بازی نے بھی ان کیلئے نرم گوشہ کے احساس کو مار دیااور اپنی خفیہ ایجنسی CIA کی کاروائیوں کو اچھے لفظوں سے نہیں دہرایا۔ آخر ایسی کون سی پاور اس کے پیچھے ہے جو یہ سب کچھ اس سے کروا رہی ہے۔اپنی تقریرکے دوران سابقہ صدور کی موجودگی میں ان کی پالیسیوں پر کڑی تنقید سے ان کے لئے بیورکریسی کی طرف سے محبت کا ہاتھ بڑھتا کم ہی دکھائی دے گا۔ واقعی محسوس ہونے لگا ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات کو ہائی جیک کیا گیا ہے اور اس کی ریہرسل پلاننگ بہت پہلے سے جاری تھی اور وہ خفیہ ہاتھ بڑی صفائی سے کام کرگئے ،امریکی عوام کو بڑی حیرانی کا سامنا کرنا پڑا کہ ان کا ووٹ کدھر گیا۔ مقابلے سے بالکل آئوٹ ٹرمپ کو میدان کا فاتح قرار دلوانے والے اب یقینا ان سے اپنی مرضی کے کام بھی لیں گے۔
پاکستان مخالف ٹرمپ کے منتخب ہوتے ہی انڈیا اور اسرائیل میں جشن کا سماں ہے اور پاکستان کے خلاف امریکی ڈو مور کا مطالبہ کچھ ہی دنوں کی بات ہے۔ حکومت پاکستان کو بھی موجودہ امریکی صدر سے اچھی توقعات کی بجائے سب سے پہلے پاکستان کے نعرہ پر کام کرنا ہوگاٹھیک ہے مسلمہ امہ کا درد ہمار ا درد لیکن جب عرب ریاستوںنے ان ممالک سے اپنے تعلقات قائم کر رکھے ہیں تو ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے اپنے تعلقات بگاڑیں۔کتنی اسلامی ملک ہیں جنہوں نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات کا خاتمہ کر رکھا ہے ،کیا یہ ذمہ داری بھی ہماری ہے۔ چائنا کے ساتھ ہماری دوستی ہمالیہ سے بھی بلند ہے ، اس میں کوئی دو رائے بھی نہیں لیکن کیا چائنہ نے انڈیا سے اپنے تعلقات ،تجارت ہمارے لئے مئوخر کی ، باالکل نہیں۔کرنی بھی نہیں چاہئے سرحدی معاملات اپنی جگہ تجارتی معاملات اپنی جگہ چائنہ نے ہر فورم پر ہمارا بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا اور دیتا رہے گا لیکن اپنے دفاعی اور تجارتی معاہدے بھی انڈیا امریکہ سے جاری رکھے۔
اس ساری بحث کا مطلب یہ نہیں کہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات ہونے چاہئیں ؟بلکہ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہماری پالیسیوں میں تسلسل ہونا چاہئے تاکہ بیرونی دنیا ہمارے ساتھ چلنے پر مجبور ہو جائے یہ نہیں کہ مشرف کی پالیسیوں کو نوازشریف، اور نوازشریف کی پالیسیوں کوعمران یا پیپلز پارٹی بلڈوز کرے مغربی دنیا کی طرح ہمارے بھی تھنک ٹینکس ، پالیسی میکرز ہونے چاہئیں جن کی آراء اور پالیسیاں جاری و ساری رہنی چاہئیں تو پھر ورلڈ میں ہمارا نام ہوگا، ہمارا اعتبار ہوگا،چائنہ کی کامیابی بھی اسی وجہ سے ہے کہ انہوں نے اپنی قومی پالیسیوں میں تسلسل رکھا۔ ہر آنے والی حکومت نے جانے والی حکومت کے اقدامات کو شرف قبولیت دیا یہی قومی پالیسیاں اور قومی ادارے ڈونلڈ ٹرمپ کے آگے بہت بڑی دیوار ہو نگے اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ٹرمپ ان کے خلاف جا سکیں گے؟۔