کراچی (جیوڈیسک) اسٹیٹ بینک آف پاکستان آئندہ 2 ماہ کے لیے مانیٹری پالیسی ہفتہ 17 مئی کو جاری کرے گا۔ ماہرین کے مطابق افراط زر میں کمی، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے اور روپے کی قدر میں استحکام مانیٹری پالیسی میں نرمی کے لیے انتہائی سازگار عوامل ہیں۔ اسٹیٹ بینک نے رواں مالی سال افراط زر کی شرح 11 سے 12 فیصد رہنے کا اندازہ لگایا تھا تاہم رواں مالی سال اوسط افراط زر 9 فیصد سے کم رہا اور مالی سال کے اختتام تک بھی افراط زر 8 سے 10 فیصد کے درمیان رہنے کی توقع ہے، اس دوران زرمبادلہ کے ذخائر بھی مستحکم ہوئے ہیں، فروری 2014 تک ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر کی مالیت 7.6 ارب ڈالر تھی جس میں مرکزی بینک کے پاس 2.8 ارب ڈالر کے ذخائر تھے جو 1 ماہ کے درآمدی بل کے لیے بھی ناکافی تھے تاہم آئی ایم ایف کے قرضوں، 2 ارب ڈالر کے یورو بانڈز اور دوست ملکوں کی مالی معاونت سے زرمبادلہ کے ذخائر میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اور مجموعی ذخائر کی مالیت 12.9 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے جس سے روپے کی قدر کو بھی استحکام ملا ہے۔
6 سال کی معاشی ابتری کے بعد اب معاشی بحالی کے آثار بھی نمایاں ہو رہے ہیں، لارج اسکیل مینو فیکچرنگ میں اضافہ، اسٹاک مارکیٹ اور ریئل اسٹیٹ کے شعبوں میں تیزی سے بہتری آ رہی ہے، اس موقع پر ڈسکائونٹ ریٹ میں کمی سے کاروباری حالات کو تقویت مل سکتی ہے۔ ادھر ڈسکائونٹ ریٹ میں کمی کے امکانات کو رد کرنے والے حلقوں کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک آئندہ بجٹ کے چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے مانیٹری پالیسی برقرار رکھنے کا فیصلہ کر سکتا ہے، آئندہ بجٹ میں آئی ایم ایف کے دبائو پر بجلی کے نرخ میں اضافہ اور پاور سبسڈی میں کمی سے افراط زر میں اضافے کے دبائو کا سامنا ہو گا۔