یوں تو وطنِ عزیز متعدد اندرونی و بیرونی مسائل میں گھِرا ہوا ہے مگر ان تمام مسائل میں ایک نہایت تباہ کن مسئلہ کسی بھی منصب کے حصول کے لئے پیسے کا بے دریغ استعمال ہے ۔’ صوبائی اسمبلی کی سیٹ ہو یا قومی اسمبلی کی، سینیٹر بننا ہو یا نگران وزیر اعلیٰ ، الغرض اگر آپ کے پاس بے حساب پیسہ ہے تو وطنِ عزیز میں کوئی بھی منصب حاصل کرنا مشکل نہیں۔اہلیّت، قابلیت، دیانتداری اب قصہ پارینہ بن چکا ہے۔اگر ہم پاکستان کی سیاست(خصوصا 1980کے بعد) کا جائزہ لیں تو اس بات کا ثبوت واضح طور پر سامنے آجاتا ہے کہ سیاست پیسے کا کھیل بن چکا ہے ، پیسے کے بغیر سیاست میں حصہ لینا دشوار ہی نہیں، ناممکن ہے۔
ہماری سیاست کی الف ب ہی پیسے سے شروع ہو تی ہے۔گذشتہ تمام عام انتخابات میں وہی جیتا ،جس نے زیادہ پیسہ لگایا ، حال ہی میں سینیٹ کا الیکشن ہوا ہے، سب نے دیکھا ، پیسے کا بے دریغ استعمال کیا گیا اور وہی جیتا جس نے پیسہ لگایا۔گزشتہ روز خیبر پختونخوا کے لئے نگران وزیر اعلیٰ کے نام کا اعلان سامنے آیا تواپوزیشن جماعتوں(عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی قومی وطن پارٹی)اور سوشل میڈیا پر ایک شور مچ گیا کہ پیسے کے بل بوتے پر نگران وزیراعلیٰ لایا جا رہا ہے ،صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں بھی اپوزیشن جماعتوں کے متعدد اراکین نییہ الزام لگایا کہ نگران وزیر اعلیٰ کا انتخاب پیسے کے بل بوتے پر کیا جا رہا ہے۔اسمبلی اور سوشل میڈیا میں برپا ہونے والا یہ شور یقینا دال میں کچھ کالا ہونے کی دلیل فراہم کرتا ہے۔
یہ سب کچھ دیکھ کر ہم جیسے دردِ دل رکھنے والے لوگ حیران و پریشان ہو جاتے ہیں ، سوچتے ہیں،الہیٰ ! یہ ماجرہ کیا ہے ؟ آخر اگر یہی ریت برقرار رہی تو انجامِ گلستاں کیا ہو گا؟آل انڈیا مسلم لیگ کے جائینٹ سیکرٹری حسین ورک نے اپنے ایک مکتوب میں قائد اعظم کو لکھا کہ جمیعت علماء ہند کے ایک مولانا صاحب نے خواہش ظاہر کی ہے کہ اگر انہیں کچھ وظیفہ دیا جائے تو وہ جمیعت علمائے ہند اور کانگرس کے اتحاد کو تو ڑ سکتا ہے۔”اس خط کے جواب میں قائد اعظم نے ورک صاحب کو خط لکھا کہ ورک صاحب ! سیاست میں روپے پیسے کے چلن سے بہت زیادہ خرابی پیدا ہو سکتی ہے۔میں ایسا کام نہیں کرنا چاہتا ،جس سے بگاڑ پیدا ہو۔افسوس صد افسوس ، کہ قائد اعظم کے فرمودات آج کے سیا ست دان بھلا چکے ہیں 1980سے پہلے ہم نے پیدل چلتے، سائیکل پر چلتے افراد کو بھی پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہو تے ہو ئے دیکھا ہے مگر اس کے بعد پیسے کا استعمال وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہا۔کہتے ہیں جب جنرل جیلانی صوبہ پنجاب کے گورنر تھے تو میاں نواز شریف نے ان کی بیگم کو مرسیڈیز گاڑی کی چابی دی،گورنر صاحب نے کہا ” رہنے دیجئے !یہ آپ کیا تکلف کر رہے ہیں ” میاں صاحب نے جواب میں کہا، یہ بھائی بہن کا معاملہ ہے،آپ دخل نہ دیں ” شاید وہ دن روپے پیسے کے استعمال کا پہلا دن تھا۔اس کے بعد چل سو چل ، کا معاملہ شروع ہوا۔ میاں صاحب بہت تھوڑے عرصہ میں وزیرِ خزانہ سے وزیرِ اعلیٰ بنے اور پھر اسی کارآمد چال کو استعمال کرتے ہو ئے ایک بار نہیں ، تین بار وزیراعظم بن گئے۔دیکھا دیکھی پیسے کا استعمال ہو نے لگا، جونیجو (مرحوم) نے اپنے دورِ حکومت میں ہر رکنِ اسمبلی کو پجارو دے دی پھر چھانگے مانگے کی سیاست شروع ہو ئی اور یوں ‘ مریضِ عشق پر رحمت خدا کی۔
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، ۔حکمرانوں کا سرکاری اخراجات پر عیاشیاں کرانا معمول بن گیا۔صحافیوں کو لفافے دینا ، میڈیا میں پیسے لگانا،بیوروکریٹس اور من پسند افراد کو قیمتی پلاٹس الاٹ کرنا وطیرہ بن گیا۔ آج ملک کی تمام بڑی سیاسی پارٹیاں اپنے ایک ایک جلسے پر کروڑوں روپے خرچ کر رہی ہیں۔گزشتہ صرف ایک ماہ کے دوران مختلف سیاسی جماعتوں کے جلسوں کے اخراجات کا تخمینہ لگا دیا جائے تو اربوں روپے خرچ کئے گئے ہیں۔اب الیکشن قریب آرہے ہیں تو پارٹیاں اپنے امیدواروںسے فنڈ کے نام پر کروڑوں روپے لے کر ٹکٹ جاری کر رہی ہیں ۔پاکستانی سیاست کا رنگ اب مکمل طور پر بدل چکا ہے۔اہلیت،قابلیت اور اخلاص اب معیار نہیں رہا۔ملک کے تمام اہم ادارے اس وجہ سے تباہی کے کنارے کھڑے ہیں، کسی ملک کے ادارے تباہ کرنے کے لئے ان میں ناا ہل لوگوں کا دخول ہی کافی ہوتا ہے۔روس میں مشہورِ زمانہ CIAکا کا جاسوس جب پکڑا گیا تو پوچھ گچھ کے دوران کوشش کی گئی کہ ان سے یہ معلوم کیا جائے کہ انہوں نے روس کے کیا راز سی آئی اے کو بھیجے ہیں کافی پوچھ گچھ کے بعد معلوم ہوا کہ امریکی جاسوس کو صرف اس لئے روس میں بھیجا گیا تھا کہ وہ روس میں رہ کر صرف یہ کوشش کرے کہ ان کے ملک میں یعنی روس میںنا اہل لوگوں کو ان کے اداروں میں بھرتی کیا جائے۔گویا کسی ملک کی تباہی کے لئے ان کے اداروں میں نااہل لوگوں کو شامل کرنا ہی کافی ہو تا ہے۔وطنِ عزیز کو آج ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ایک کونسلر سے لے کر وزیراعظم تک منصب حاصل کرنے کے لئے نوٹوں کی سیڑھی لگائی جاتی ہے۔جو بہت ہی خطر ناک عمل اور ایک بڑی تباہ کن پالیسی ہے۔لہذا حکومت اور الیکشن کمیشن سے گزارش کی جاتی ہے کہ وہ ایسے قوانین بنا کر اس پر عملدرآمد بھی یقینی بنائے کہ کوئی شخص صرف پیسے کے بَل بوتے پر اوپر نہ آئے بلکہ اہلیت، قابلیت، دیانتداری اور اخلاص جیسے اوصاف ہی کسی بھی منصب حاصل کرنے کے ضروری اور لازمی شرط قرار دیا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔