کراچی : جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور مرکزی جماعت اہل سنت کے نگران اعلیٰ شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہا ہے کہ کیا ہم سمجھتے ہیں کہ ملک موجودہ حالات میں کسی اور نئے دھرنے کا متحمل ہو سکتا ہے؟ ایسا کرنا بلاشبہ مشکل ترین اور خلفشات سے بھرپور ہوگا، کسی نئے سانحہ سے بچنے کے لئے ہمیں دھرنے سے بہتر کسی حکمت عملی کو زیر غور لانا چاہیے۔
اس وقت ملک بھر میں سیکورٹی ادارے آپریشن میں مصروف ہیں اگر ایسے میں کوئی بڑی عوامی سرگرمی منعقد ہوتی ہے تو ہمیں کسی نئے سانحہ کے امکانات پر بھی نظر رکھنی ہوگی، کراچی آپریشن سے جن نتائج کی امید کی گئی تھی ایسے کوئی نتائج دیکھنے میں نہیں ملے ہیں دس فیصد بہتری وقتی تو ہو سکتی ہے مگر دیر پا نتائج برآمد نہیں ہو سکتے ہیں۔
آرمی چیف کراچی آپریشن کے لئے اس پہلے اگر مسلسل اجلاس بلاتے اور آپریشن کو کی از خود نگرانی کرتے تھے کراچی کا یہ حال نہ ہو تا، سائبر کرائم میں جرم کے ساتھ ساتھ عوامی نکتہ نظر اور سیاسی و نظریاتی اختلاف کو بھی جرم کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے، یعنی کوئی بھی شخص حکومت کی کسی پالیسی یا حکومتی ایجنڈے کی مخالفت کرے گا تو اس جیل میں بند کردیا جائے گا، اس طرح کا قانون شدید عوامی رد عمل کا باعث بنے گا۔
حکومت خود اپنے پیر پر کلہاڑی مار رہی ہے، توانائی، ترقی اور تعلیم کا کوئی بل پاس نہیں ہوتا ہے مگر شادی ، خواتین کی آزادی اور عوامی آواز کو دبانے جیسے بل فوراََ پاس ہو جاتے ہیں، سوشل میڈیا نے حقیقی طور پر زرد سحافٹ کو مزید زرد کردیا ہے، جو بات میڈیا چھپاتا ہے وہ بات سوشل میڈیا عام کردیتا ہے، جس سے حکومت اور اس کے ساتھی پریشان ہیں۔
انجمن طلبہ اسلام پاکستان کے مرکزی صدر محمد زبیر صدیقی ہزاروی سے ایک اہم ترین ملاقات میں جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور مرکزی جماعت اہل سنت کے نگران اعلیٰ شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہا ہے کہ انجمن طلبہ اسلام ہمارا اثاثہ ہے اور طلبہ کی یہ جماعت امن پسند تحریک ہے جو طلبہ کے دلوں میں عشق رسولۖ کی شمع فروزاں کر رہی ہے۔
شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہا کہ ایک دو دن میں اپنی پالیسی واضح کردینگے، کسی کی ذات کے خلاف نہیں بلکہ جرم کے خلاف کاروائی کی جائے، ہر شخص کے کو کٹہرے میں لایا جائے جس کا نام پانامہ میں آیا ہے، آرمی چیف کو کراچی بہت دیر میں یاد آیا ہے جب کہ ہزاروں لوگ منوںمٹی تلے دب گئے۔
سائبر کرائم بل متنازع ہے، اس بل کے ذریعے آزادی اظہار کو گلا گھونٹا جائے گا، آواز خلق کو دبانا انصاف اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔