اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) چار افراد پر مشتمل ایک گروپ نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا کہ وہ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے ساتھ وفاقی حکومت کو آئین کے آرٹیکل 29 پر غور کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا حکم دے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آرٹیکل 29 ’پالیسی کے اصولوں‘ سے متعلق ہے اور یہ ریاست کے ہر حصے اور اتھارٹی کی ذمہ داری بناتی ہے کہ وہ ان اصولوں کے مطابق کام کرے۔
درخواست گزاروں نے کہا کہ وہ پاکستان کے باشعور اور قانون کے پابند شہری ہونے کے ناطے آئین کے آرٹیکل 29 کی دفعات کی مسلسل خلاف ورزی پر سپریم کورٹ کی خصوصی توجہ چاہتے ہیں۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کے موجودہ ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور بانی رکن کرامت علی، سی پی ایل سی کے بانی رکن ناظم فدا حسین حاجی، عورت پبلیکیشن اینڈ انفارمیشن سروسز فاؤنڈیشن کی ریذیڈنٹ ڈائریکٹر مہناز رحمان اور اسٹیٹ بینک کی ڈیموکریٹک ورکرز فیڈریشن کے سیکریٹری جنرل لیاقت علی ساہی پر مشتمل گروپ نے سپریم کورٹ میں درخواست دی ہے۔
انہوں نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) کے سابق صدر رشید اے رضوی کے ذریعے درخواست دائر کی۔
درخواست میں سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ صدر کو پابند کرے کہ وہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے پہلے آرٹیکل 29 کے نفاذ سے متعلق رپورٹ پیش کرے۔
یہ بھی پڑھیں: عدالتی نظام میں بہتری کیلئے کریمنل جسٹس سسٹم کی اصلاحات اہم ہیں، وزیراعظم
درخواست گزاروں نے کہا کہ اسی طرح چاروں گورنروں کو ہدایت کی جائے کہ وہ اپنی رپورٹیں صوبائی اسمبلیوں کے سامنے رکھیں۔
آرٹیکل 29 میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہر سال کے حوالے سے صدر وفاق کے امور کے حوالے سے اور ہر صوبے کا گورنر اپنے صوبے کے معاملات کے حوالے سے پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی کے ہر ایوان کے سامنے رکھے گا۔
پالیسی کے اصولوں کی پاسداری اور ان پر عمل درآمد کی رپورٹ اور بحث کے لیے قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلی کے طریقہ کار کے قواعد میں فراہمی کی جائے گی۔
درخواست گزاروں نے کہا کہ گزشتہ برس 13 نومبر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر عارف علوی کا خطاب آئین کے آرٹیکل 29 کی تعمیل پر خاموش تھا۔
انہوں نے کہا کہ یہ آرٹیکل 29 کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
درخواست گزاروں نے کہا کہ شہری اور ٹیکس دہندہ ہونے کے ناطے یہ جاننے کے حقدار ہیں کہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتیں کس طرح کام کر رہی ہیں۔
درخواست میں کہا گیا کہ جب تک صدر یا وفاقی حکومت، گورنروں، صوبائی حکومتوں کے دفتر سے تحریری طور پر کوئی رپورٹ نہیں آتی اس کا اندازہ/فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کہ یہ حکومتیں پالیسیوں کے اصولوں کے مطابق کام کر رہی ہیں یا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ آئین کا مینڈیٹ ہے کہ ہر سال اس طرح کی رپورٹیں صدر پارلیمنٹ کے سامنے اور اسی طرح متعلقہ گورنروں کی طرف سے صوبائی اسمبلیوں کے سامنے رکھی جائیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلیوں کے سامنے مطلوبہ رپورٹس نہ رکھنے سے قوم کو ملک کی سالانہ پیشرفت جاننے کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے، یہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے عوام پر بڑے پیمانے پر دھوکا دہی کے عمل کے مترادف ہے۔