تحریر : سید انور محمود آج پاکستان کا شمار دنیا کے ان تین ملکوں میں ہوتا ہے جہاں انسانی جسم کو مفلوج کر دینے والی بیماری پولیو کے وائرس پر تاحال پوری طرح قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔ دیگر دو ملکوں میں افغانستان اور نائیجیریا شامل ہیں لیکن وہاں رواں سال پولیو کے رپورٹ ہونے والے نئے کیسز کی تعداد پاکستان کی نسبت انتہائی کم ہے۔ افغانستان میں اب تک 12 جبکہ نائیجیریا میں چھ پولیو کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔پاکستان اور پاکستانیوں کی بدنصیبی یہ ہے کہ عام لوگوں میں تعلیم کی کمی ہے جسکی وجہ سے اُنکا مذہبی استحصال بہت آرام سے کرلیا جاتا ہے، لہذا یہ ہی وجہ ہے کہ طالبانی ہمدردوں نے پولیو کے قطروں میں امریکہ کی سازش ڈھونڈ لی ہے اور اسی وجہ سے آج پاکستان پر سفری پابندیاں لگی ہوئی ہیں۔ دہشت گردی صرف یہ نہیں ہے کہ لوگوں کو بم دھماکوں یا خودکش حملوں میں مارا جائے، دہشت گردی یہ بھی ہے کہ اُن کو غلط اطلات دیکر اپاہج بنایا جائے۔ دسمبر 2012ء کے آخر اور جنوری 2013ء کےشروع میں کراچی اور پشاور میں گیارہ پولیو ورکر کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا جبکہ طالبان دہشت گردوں کےحامی اخبار “امت” نے کسی غیر معروف مولانا محمد جہان یعقوب کی ایک فرضی رپورٹ “انسداد پولیو مہم، تصویر کے دو رخ” کے نام سے20 سے 22 دسمبر 2012ء کو شایع کی اس میں کہا گیا کہ ایک انگریزی اخبار (اخبار کا نام غائب) کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا کی 70 فیصد آبادی پولیوویکسن لینے سے انکاری ہے۔
اسکے علاوہ اس رپورٹ میں سوائے شرانگیزی اور معصوم لوگوں کے بہکانے کے کچھ نہیں تھا، لیکن اس اخبار میں ان گیارہ پولیو ورکرز جن میں چھ خواتین تھیں کا ذکر بلکل نہیں تھا جن کو طالبان دہشت گردوں نے اُسی زمانے میں مارا تھا۔ طالبان یا دوسرئے دہشت گردوں کا مقصد صرف اور صرف پاکستان کو نقصان پہنچانا ہے، امت جیسے اور بھی اخبار ہونگے جو پاکستانی بچوں کو اپاہج کرنے کےلیے امت جیسے کام کررہے ہونگے، اور پھر سوشل میڈیا پر کچھ نادان دوستوں نے اُن شرانگیز مضامین کو پھیلایا ہوگا اور پھیلاینگے۔ سال 2013ء میں پورئے پاکستان سے پولیو سے متاثرہ 93 کیسز رپورٹ ہوئے تھے، لیکن رواں سال میں ابتک پولیو سے متاثرین کی تعداد 237 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ اس تشویشناک اضافے کی ایک بڑی وجہ گزشتہ دو سالوں میں پانچ سال تک کی عمر کے اڑھائی لاکھ بچوں تک سلامتی کے خدشات کے باعث انسداد پولیو ٹیموں کا نہ پہنچنا بتایا جاتا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت نے پانچ مئی کو پاکستان، کیمرون اور شام کو دنیا میں پولیو کے پھیلاؤ کا سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے ان ملکوں سے مرض کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے ہنگامی اقدامات کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن افسوس نواز شریف حکومت جو گذشتہ سال جون سے برسراقتدار ہے کچھ نہ کیا اور پولیو کے خاتمے میں ناکامی کے بعد پاکستان پر عالمی ادارہ صحت کی جانب سے یکم جون سے سفری پابندیاں عائد کردی گیں۔ منسٹری آف نیشنل ہیلتھ سروسز اور ڈبلیو ایچ او کے اعلامیہ کے مطابق یکم جون سے پاکستان سے باہر سفر کرنے والے تمام مسافروں کو پولیو ویکس ینیشن کا سرٹیفیکیٹ پیش کرنا لازمی ہوگا۔ آج پاکستان جہاں دوسری باتوں کےلیے بدنام ہے وہاں دنیا میں سب سے زیادہ پولیو سے متاثرین کیسیز رپورٹ ہونے پر بھی بدنام ہورہا ہے۔
تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے والے نواز شریف کے شاہانہ انداز حکومت کی وجہ سے اُن کی ڈیڑھ سالہ حکومت سے عوام کو کوئی آسانی تو میسر ہوئی نہیں البتہ مشکلیں مزید بڑھ گی ہیں اور یہ ہی وجہ ہے کہ پولیو سے متاثرین کے اسقدر زیادہ کیسیز رپورٹ ہونے پر پاکستانیوں کی مشکلات میں اور اضافہ ہوسکتا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ڈیڑھ سال بعد حکومت کو اس طرف توجہ دینے کا خیال آیا ہے ، لیکن جیسے ہی وزیراعظم کا یہ بیان سامنے آیا کہ وہ چھ ماہ میں ملک سے پولیو کو ختم کر دیں گے، خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ میں نامعلوم افراد نے انسداد پولیو مہم کے خلاف پمفلٹ تقسیم کیے جن میں کہا گیا ہے کہ اس ویکسین میں مضر صحت اجزا ہیں۔ اس پمفلٹ میں مزید لکھا گیا ہے کہ نائجیریا کے ایک ڈاکٹر کی تحقیق کے مطابق اس میں ایسے اجزا پائے جاتے ہیں جو بانجھ پن کا سبب بنتے ہیں۔ دو ہفتے پہلے پاکستان کے قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں کالعدم تنظیم تحریک طالبان کی جانب سے پشتو زبان میں ایک پمفلٹ جاری کیا گیا تھا جس میں دیگر اہلکاروں کے علاوہ انسداد پولیو مہم کے رضا کاروں پر حملوں کی دھمکی دی گئی تھی۔ پاکستان اور دنیا بھر میں ماہرین پہلے ہی ان تمام الزامات کو رد کر چکے ہیں جو پولیو ویکسن کے مخالف کہتے ہیں۔ اور اُن کا کہنا ہے کہ پولیو ویکسین میں اس بیماری سے بچاؤ کے علاوہ کوئی اور اجزا شامل نہیں ہیں۔ اس سال جون میں اسلام آباد میں ہونے والی بین الاقوامی علما کانفرنس برائے انسداد پولیو کے شرکا نے پولیو ویکسین کے استعمال کو جائز قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ پولیو ویکسین میں کوئی حرام یا مضر صحت اجزا شامل نہیں، مسلم ممالک میں بچوں کو پولیو جیسے موذی مرض سے بچانے کیلیے اقدامات کیے جائیں۔ کانفرنس کے اختتام پر “فتوی اسلام آباد”جاری کیا گیا جس میں پولیو ویکسین کے استعمال کو جائز قرار دیا گیا۔ کانفرنس کے شرکا نے انسداد پولیو مہم میں حصہ لینے والے اہلکاروں پر ہونیوالے حملوں اور مہم کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنیکی بھی مذمت کی۔ دوسری طرف جاپان پولیو کے خاتمے کیلئے پاکستان کو 55 کروڑ روپے فراہم کرے گا جبکہ بل اینڈ میلنڈ ا گیٹس فاؤنڈیشن پولیو کے خاتمے کیلئے 37 ارب روپے دیں گے۔
Nawaz Sharif
وزیر اعظم نواز شریف نےانسداد پولیو کی سٹیئرنگ کمیٹی کے اجلاس میں کہا کہ پولیو ورکروں کے خلاف تشدد، شدت پسندوں کی جانب سے پولیو کے قطرے پینے پر پابندی اور فوجی آپریشنوں کے باعث اس سال پولیو کے کیسوں میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ملک کے قبائلی علاقوں میں کامیابی سے جاری فوجی آپریشن کے باعث ان بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے گئے ہیں جن تک پہلے رسائی نہیں تھی۔ میں آپ کو یقین دہانی کرواتا ہوں کہ ہم اس موقعے سے بھرپور فائدہ اٹھائیں گے اور پاکستان کے تمام بچوں کو پولیو کے قطرے پلائیں گے تاکہ پولیو سے پاک ملک ممکن ہو سکے۔ اگر اس مسلئے کو تھوڑا سا اسٹیڈی کرلیا جائے تو بہتر ہوگا۔ اجلاس میں صوبائی حکام نے اپنے اپنے صوبوں میں پولیو کیسز اور اس مرض کے خاتمے کے لیے جاری اقدامات کے بارے میں آگاہ بھی کیا۔
انسداد پولیو کی سٹیئرنگ کمیٹی کے اجلاس میں صوبائی حکام نے اپنے اپنے صوبوں میں پولیو کیسز اور اس مرض کے خاتمے کے لیے جاری اقدامات کے بارے میں آگاہ بھی کیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے مطابق گذشتہ تین سال کے دوران پنجاب میں پولیو کے تین کیسز سامنے آئے ہیں جبکہ وزیر اعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ امن و امان کے باعث کراچی کی آٹھ یونین کونسلز میں انسداد پولیو مہم متاثر ہوئی۔ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے کہا کہ بڑھتے ہوئے کیسز کے باعث صوبے میں پولیو ایمرجنسی نافذ کی ہے اور ایمرجنسی سیل قائم کر دیا گیا ہے۔ تاہم خیبرپختونخوا میں امن و امان کی صورتحال کی وجہ سے پولیو مہم میں مشکلات ہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ نے اجلاس کے شرکا کو بتایا کہ گزشتہ دو سال کے دوران بلوچستان میں پولیو کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔ جبکہ کشمیر میں بھی پولیو کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔ اسکا مطلب ہے کہ اس بیماری کا شکار سب سے زیادہ صوبہ خیبرپختونخوا ہے یا پھر کراچی کی آٹھ یونین کونسلز ہیں۔ اگر وزیراعظم واقعی یہ چاہتے ہیں کہ ملک سے پولیو کا خاتمہ ہو تو سب سے پہلے میڈیا مہم کے زریعے لوگوں کا آگاہی دی جائے۔قومی اسمبلی سے ایک قانون پاس کرایا جائے جس میں اُن والدین کےلیے سزا مقرر کی جائے جو اپنے بچوں کو پولیو کے قطرئے پلانے سے انکار کریں۔ اُن تمام دہشت گردوں کے خلاف طاقت کا بھرپور استمال کیا جائے جو کسی بھی شکل میں انسداد پولیو مہم کی راہ میں رکاوٹ ڈالیں یا اس مہم کے خلاف کسی بھی طرح کوئی پروپگنڈہ کریں۔
آخر میں سعودی عرب میں مقیم ایک پاکستانی ساجد صاحب کا ایک اردو ویب سائٹ پر پولیو مہم پردلچسپ تبصرہ، اُن دوستوں کےلیے جو طالبان دہشت گردوں کے پمفلٹ یا امت جیسے چیتھڑئے اخبار سے متاثر ہوجاتے ہیں پولیو ویکسین سے اگر کوئی بانجھ ہوتا تو میں ضرور ہو چکا ہوتا کہ اپنے لڑکپن کی عمر سے لے کر معلمی کے دوران بھی ویکس ینیشن کے قطرے پی لیا کرتا تھا اور ادھر سعودی عرب میں بھی جب اپنے بیٹے کو ویکس ینیشن کے لئیے ڈسپنسری لےکرجاتا تھا تو ڈاکٹروں سے واقفیت کی بنیاد پر مذاق مذاق میں چند قطرے پی لیتا۔ لیکن میں تو بانجھ نہیں ہوا۔ نہ مجھے ایڈز لگی اور نہ ہی کینسر کی کوئی علامت ظاہر ہوئی۔افسوس تو اس بات پہ ہے کہ جو لوگ تعلیم کے نام سے بدکتے ہیں اور اول و آخر جہاد پر زور دیتے ہیں اور فلاحِ عامہ کو فضولیات کے درجہ میں رکھتے ہیں ان کے جہاد میں ایسا کوئی انتظام نہیں کہ پولیو اور چیچک جیسی مہلک بیماریوں پر ریسرچ کریں اور ان کے لئیے حفاظتی ویکسین یا دوائی بنا سکیں۔ اب میرے جیسا مسلمان تو مجبور ہے کہ ” کافروں” کی ریسرچ سے مستفید ہو ۔ لیکن یہ بات بھی ان کو کھٹکتی ہے کہ یہ مسلمان ہو کر” کافروں” سے استفادہ کرے اس لئیے اُن کی مخالفت بالکل منطقی ہے۔مجھے شدید حیرانی اُس وقت ہوتی ہے جب اُن کا اپنا جہاد بھی “کافروں” کے بنائے ہوئے بموں، میزائلوں اور سٹنگر میزائلوں سے انجام پاتا ہے۔ عجیب تضاد ہے بھئی، انسانیت کی تباہی اور قتل کے لئیے تو آپ کو اُن کی تحقیق اور ” کفر” پر اعتراض نہیں لیکن جب ایک عام مسلمان کی فلاح کی بات ہو تو بات کفر و ایماں کی جنگ اور اس سے بھی آگے نہ جانے کہاں تک پہنچائی جاتی ہے۔ پھر ان کی تحقیق پر ایسے ایسے شگوفے چھوڑے جاتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ اگر مسلمانوں کی خیر خواہی کے دعویدار ویکسین مخالف حضرات ، واقعی مخلص ہیں تو خود ریسرچ کیوں نہیں کرتے؟ تا کہ مسلمان “کافروں” کی دست وبرد اور بانجھ پن سے محروم رہیں۔ معاف کیجئیے گا میں کچھ کا کچھ لکھ گیا اور یہ تو بھول ہی گیا کہ اُن کا جہاد ہے لوگوں کی زندگیوں کا چراغ گل کرنا، جس کام سے کسی کو زندگی ملے اُس کا اُن سے کیا تعلق۔ اس تبصرئے کے بعد ہمارا کیا انتخاب ہو گا؟ اپنے بچوں کو پولیو ویکسین پلواکر ایک صحت مند معاشرہ یا دہشت گردوں کی افواہوں سے متاثر ہوکر ایک اپاہج معاشرہ کا قیام اور اللہ نہ کرئے ایسا ہوا تو پھر دہشت گردوں کو خودکش حملوں یا بم دھماکوں کی ضرورت نہیں ہو گی۔